فتح صرف داد نہیں، احتساب بھی چاہتی ہے۔

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان کی حالیہ فوجی کامیابی، جس میں اس نے بھارتی جارحیت کے خلاف مضبوط موقف اپنایا، نے قومی فخر اور یکجہتی کو جنم دیا ہے۔ تاہم، حکمران طبقے کی یہ کوشش کہ وہ اس عسکری طاقت کو سیاسی جواز میں بدل دے، ایک خطرناک رجحان کو ظاہر کرتی ہے: فوجی فتح کو اچھی حکمرانی کے مترادف سمجھنا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ میدانِ جنگ میں کامیابی سیاسی احتساب اور جمہوری طرز حکمرانی کا نعم البدل نہیں ہوسکتی۔

اگرچہ افواجِ پاکستان نے ملک کی سرحدوں کا دفاع کیا، مگر پاکستان کی اصل لڑائی — انصاف، شفافیت، اور عوامی فلاح پر مبنی حکمرانی کے لیے — ابھی باقی ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کے دفاعی بیانیے نے بجا طور پر ایک اہم نکتہ واضح کیا ہے: وطن کا دفاع کرنا اور اسے انصاف سے چلانا دو الگ چیزیں ہیں۔ ہمیں اپنی فوجی قوت پر فخر ہونا چاہیے، لیکن یہ فخر ہمیں آزادیِ رائے کی پابندی، اختلافِ رائے کے خاتمے، اور جمہوری اداروں کی تباہی سے آنکھیں بند کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

جنگی قوم پرستی کے سائے میں ناقدین کو خاموش کرانے کے بجائے، حکومت کو یہ موقع ایک عملی پیغام سمجھنا چاہیے — صرف سرحدوں کی حفاظت ہی نہیں، بلکہ ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کی ٹوٹتی بنیادوں کو بحال کرنا بھی ضروری ہے۔ سیاسی اصلاح غداری نہیں، بلکہ سچی حب الوطنی ہے۔ اگر احتساب نہ ہو تو میدانِ جنگ میں حاصل کی گئی آزادی اندر سے کھوکھلی ہوسکتی ہے۔

جنگ کے بعد اکثر قومیں اس خوش فہمی کا شکار ہوجاتی ہیں کہ قومی سلامتی ہی استحکام ہے، لیکن جب تک قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کا احترام، اور عوامی شراکت داری پر مبنی طرز حکمرانی قائم نہیں ہوتی، فتح صرف ایک فریب بن کر رہ جاتی ہے۔ اگر پاکستان کی قیادت نے اس لمحے کو اصلاح کے لیے نہ اپنایا، تو ممکن ہے کہ وہ جنگ جیت جائے، مگر امن ہار جائے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ قومی دفاع کو سیاسی چالاکی سے الگ کیا جائے، اور قومی ایجنڈے کو اقتدار نہیں بلکہ عوام کے گرد گھمایا جائے۔ اصل طاقت غلبے میں نہیں، بلکہ انصاف پر مبنی حکمرانی میں ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos