وصی شاہ کا تعارف
حالات حاضرہ میں سید وصی شاہ جیسے نوجوان شعراء کرام ہیں جو ادب کو فیض یاب کر رہے ہیں۔ سید وصی شاہ کا کنبہ سادات کی ایک لڑی سے جا کر ملتا ہے۔ وصی شاہ نوجوانوں میں مقبول عام ہیں ، ان کی پیدائش ۲۱ جنوری ۱۹۷۳ کو سر گودھا میں ہوئی۔ وصی شاہ ممتاز شاعر ، کالم نویس ، ڈرامہ نویس اور ٹیلی وژن کے پروگرامز میں میزبان کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بیچلر آف کامرس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ جب وہ بہترین نمبر لے کر بی کام میں کامیاب ہوئے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ تو وہ نوکری نہیں کریں گے اور ادب اور شاعری کو بطور پیشہ اپنایا۔
وصی شاہ کی شخصیت میں گہرائی اور صبر کا عنصر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے اور وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو محبت کرتے ہیں۔ جدید دور میں ، جب بہت سارے ٹی وی چینلز موجود ہیں ، اور کتاب کے ساتھ ان کا رابطہ کم نظر آتا ہے ، اس زمانے میں شاعری کو پروان چڑھانا اردو ادب کے فروغ کی بہترین خدمت ہے۔ نوجوان شاعری کو پسند نہیں کرتے ہیں ، لیکن وصی کی شاعری نے اردو زبان کو اتنا فروغ دیا ہے کہ لوگ نہ صرف ان کی شاعری کی کتابیں خود پڑھتے ہیں بلکہ دوستوں کو تحفے کے طور پر ان کی کتابیں بھی دیتے ہیں۔
احمد فراز اور پروین شاکر کے بعد ، وہ شاعر جس نے نوجوانوں کے جذبات کے مطابق شعر میں جدید انداز میں اخلاص،محبت اور وفاداری کے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ وصی شاہ ہی ہیں۔ وصی شاہ کی تازہ نظموں میں اس بات کا ادراک ہوا ہے کہ اب وہ فطرت کی سرگوشیاں سنتے ہیں۔ انھوں نے عہد حاضر کے دکھوں کا مرہم تلاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ امید کے دنوں سے مایوس نہیں ہیں۔
کل ہمیشہ کی طرح اس نے کہا یہ فون پر
میں بہت مصروف ہوں مجھ کو بہت سے کام ہیں
اس لیے تم آؤ ملنے میں تو آ سکتی نہیں
ہر روایت توڑ کر اس بار میں نے کہہ دیا
تم جو ہو مصروف میں بھی بہت مصروف ہوں
تم جو ہو مشہور تو میں بھی بہت معروف ہوں
تم اگر غمگین ہو میں بھی بہت رنجور ہوں
تم تھکن سے چور تو میں بھی تھکن سے چور ہوں
جان من ہے وقت میرا بھی بہت ہی قیمتی
کچھ پُرانے دوستوں نے ملنے آنا ہے ابھی
میں بھی اب فارغ نہیں مجھ کو بھی لاکھوں کام ہیں
ورنہ کہنے کو تو سب لمحے تمھارے نام ہیں
میری آنکھیں بھی بہت بوجھل ہیں سونا ہے مجھے
رتجگوں کے بعد اب نیندوں میں کھونا ہے مجھے
میں لہو اپنی اناؤں کا بہا سکتا نہیں
تم نہیں آتی تو ملنے میں بھی آ سکتا نہیں
اس کو یہ کہہ کر وصی میں نے ریسیور رکھ دیا
اور پھر اپنی انا کے پاؤں پے سر رکھ دیا
وصی شاہ کی نظمیں پڑھیں تو انسان مسرت حاصل کرتا ہے۔ ان کی نظمیں زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل رومانوی اور سیاسی، ذاتی اور ملکی نوعیت کے ہیں۔ مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت اس بات کی ہے کہ شاعر اسے پیش کیسے کرتا ہے۔ اس کی شاعری کا معیار کتنا بلند ہے۔ وصی شاہ کی شاعری میں یہ حسن ہے کہ وہ روز مرہ کا معمولی موضوع بھی اپنے مخصوص منفرد اسلوب میں بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے ان کے کلام کی قدرو قیمت اپنی مثال آپ بن جاتی ہے۔