ایران کے صدر نے اپنے حالیہ بیان میں واضح کیا ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ چھیڑنا یا خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیلنا نہیں ہے۔ ان کے مطابق ایران ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے، تاہم امریکا اور اسرائیل کی حکمتِ عملی اور عزائم ایسے ہیں جو ایران کو کمزور کرنے اور بالآخر اسے تباہ کرنے کے تصور پر مبنی ہیں۔ انہوں نے اس امر کی نشاندہی کی کہ تہران کو بارہا ایسے اقدامات اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو براہ راست اس کی خودمختاری اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
ایرانی صدر نے اپنے بیان میں امریکا اور اسرائیل کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی بھی سطح پر ایران پر فوجی جارحیت کی گئی تو ایران بھرپور اور فیصلہ کن جواب دے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایران اپنی سرزمین اور اپنے عوام کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے، اور اس سلسلے میں کسی تذبذب یا کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ ان کے بقول ایران کی عسکری قوت اور عوامی اتحاد کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط دفاعی ڈھال ہے۔
مزید برآں، ایرانی صدر نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل ایران کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے اور تقسیم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن یہ عزائم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ان کے مطابق ایرانی عوام اپنی قومی وحدت اور جغرافیائی سالمیت کے بارے میں غیر معمولی حساس ہیں اور کوئی بھی ایرانی شہری یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کا ملک بیرونی قوتوں کے دباؤ یا مداخلت کے نتیجے میں تقسیم یا کمزور ہو۔
ایرانی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کی اصل طاقت اس کا اتحاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ بیرونی قوتیں ایران پر فوجی اور نفسیاتی دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن ایرانی قوم اپنی تاریخ میں ہمیشہ متحد ہو کر بیرونی سازشوں اور جارحیتوں کا مقابلہ کرتی رہی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں بھی جب ایران کو شدید خطرات کا سامنا ہوا، عوام نے یکجا ہو کر اپنی سرزمین اور نظریات کے دفاع کے لیے قربانیاں دیں اور یہ جذبہ آج بھی زندہ ہے۔
یوں ایرانی صدر کے اس بیان کو ایک دوہرا پیغام کہا جا سکتا ہے: ایک طرف یہ امریکا اور اسرائیل کے لیے ایک سخت انتباہ ہے کہ ایران اپنی سلامتی اور خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا، اور دوسری طرف یہ ایرانی عوام کے لیے ایک عزم و حوصلے کا پیغام ہے کہ وہ متحد ہو کر اپنے ملک کے دفاع اور بقا کے لیے پرعزم رہیں۔













