گندم کی کاشت میں کمی اور پاکستان کی غذائی سلامتی کا بحران

[post-views]
[post-views]

مسعود خالد خان

اقوامِ متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت کی تازہ ترین رپورٹ پاکستان کی گندم کی پیداوار پر ایک دوہری تصویر پیش کرتی ہے: ایک طرف یہ خوش آئند ہے کہ اس سال کی فصل پچھلے پانچ سال کے اوسط کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ رہی، مگر دوسری جانب ایک سنگین حقیقت یہ ہے کہ گندم کا زیرِ کاشت رقبہ 6.5 فیصد کم ہو گیا ہے۔ کسان زیادہ منافع بخش فصلوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، جو ان کے لیے معاشی طور پر منطقی فیصلہ ہے، مگر یہ پاکستان کی غذائی سلامتی اور زرعی پالیسی کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔

ویب سائٹ

زیرِ کاشت رقبے میں کمی حیران کن نہیں تھی۔ حکومت کی جانب سے کم از کم امدادی قیمت ختم کرنے اور بیجائی کے موسم میں مارکیٹ ریٹس گرنے سے کسانوں کے لیے گندم اگانا غیر منافع بخش بن گیا۔ خاص طور پر وہ چھوٹے کسان جو بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ جدوجہد کر رہے تھے، انہوں نے حساب لگایا کہ کم منافع والی فصل پر وقت ضائع کرنے کے بجائے زیادہ نفع بخش فصلیں کاشت کی جائیں۔ یہ صورتحال اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ زرعی شعبے میں پالیسی کی خامیاں کتنی گہری ہیں۔

یوٹیوب

رپورٹ نے بارانی علاقوں کے کسانوں کی مشکلات کی بھی نشاندہی کی ہے جو مجموعی طور پر گندم کا پانچواں حصہ اگاتے ہیں۔ نہری علاقوں میں اچھی پیداوار کے باوجود، بارانی علاقوں کے کسان اب بھی موسم کے رحم و کرم پر ہیں۔ خشک سالی یا پانی کی کمی میں ان کے نقصانات تباہ کن ہوتے ہیں اور وہ مجبور ہو کر خشک سالی برداشت کرنے والی فصلوں کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کی زرعی پالیسی آج بھی زیادہ تر نہری نظام پر انحصار کرتی ہے، جبکہ بڑے طبقے کو موسمی خطرات کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ٹوئٹر

یہ بھی درست ہے کہ امدادی قیمت کا خاتمہ از خود کوئی مکمل غلط فیصلہ نہیں تھا، کیونکہ معیشت دان عرصے سے کہتے آ رہے تھے کہ یہ پالیسی مارکیٹ کو مسخ کر رہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اصلاحات ادھوری کی گئیں۔ حکومت کو مارکیٹ سے نکال دینا اور اس کے متبادل مضبوط نظام قائم نہ کرنا مزید غیر یقینی صورتحال پیدا کرتا ہے۔ زرعی اصلاحات صرف آدھی ادھوری نہیں بلکہ جامع، مربوط اور مستقبل بین ہونی چاہییں۔

فیس بک

اصل چیلنج یہ ہے کہ گندم کی کاشت کو اس طرح منافع بخش بنایا جائے کہ کسان امدادی قیمت کے بغیر بھی اسے کاشت کرنے پر آمادہ رہیں۔ اس کے لیے کئی محاذوں پر اقدامات کرنا ہوں گے: کسانوں کو نرم شرائط پر قرضوں تک رسائی دینا تاکہ وہ بیج اور زرعی آلات خرید سکیں، انہیں موسمی خطرات کے خلاف انشورنس فراہم کرنا تاکہ خشک سالی یا بارش کے باعث مکمل تباہی سے بچ سکیں، اور جدید زرعی تربیت دینا تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ذخیرہ اندوز بیوپاریوں کے اثر کو ختم کرنا ہوگا جو کاشتکاروں کے منافع کو کم کر دیتے ہیں۔

ٹک ٹاک

بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو اپنی گندم کی تجارت پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی۔ کسانوں کو عالمی منڈیوں سے کاٹ دینا ان کی پیداوار اور منافع کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر مقامی پیداوار کو عالمی طلب سے جوڑا جائے تو یہ نہ صرف کسانوں کی آمدنی بڑھائے گا بلکہ اندرونِ ملک قیمتوں کو بھی متوازن رکھنے میں مدد دے گا۔

غذائی سلامتی کا پہلو سب سے اہم ہے۔ گندم پاکستان کی بنیادی غذا ہے۔ اگر زیرِ کاشت رقبہ مزید کم ہوا تو پیداوار میں کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ بڑے پیمانے پر گندم درآمد کرنا نہ صرف قیمتی زرِ مبادلہ کو کمزور کرے گا بلکہ ملک کو عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ کے رحم و کرم پر ڈال دے گا۔ اس لیے گندم کی پائیدار پیداوار محض زرعی سوال نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔

انسٹاگرام

اس ساری صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ زرعی اصلاحات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ صرف امدادی قیمت ختم کرنا کافی نہیں، بلکہ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو مارکیٹ کو فعال، چھوٹے کسانوں کو محفوظ اور پیداوار کو پائیدار بنائیں۔ پاکستان کو ایسی جامع زرعی پالیسی اپنانا ہوگی جو معیشت، موسمیاتی تبدیلی اور غذائی سلامتی کو یکجا کرے۔

اگر پالیسی سازوں نے بروقت فیصلہ نہ کیا تو گندم کی کاشت میں کمی مستقبل میں ایک بڑے غذائی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ لیکن اگر بروقت اور سنجیدہ اصلاحات کی گئیں تو یہی لمحہ ایک نئے اور مضبوط زرعی نظام کی بنیاد بن سکتا ہے۔ فیصلہ ریاست کے ہاتھ میں ہے اور وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

واٹس ایپ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos