لاہور کے جی او آرز: بیوروکریسی کی بے لگامی اور قانون کی پامالی

[post-views]
[post-views]

لاہور کے سرکاری افسروں کی رہائش گاہوں پر مشتمل جی او آرز ہمارے انتظامی ڈھانچے کا سب سے بڑا تضاد اور المیہ ہیں۔ ان رہائشی کالونیوں کو سرکاری افسروں کے لیے ایک باوقار اور قانونی سہولت کے طور پر قائم کیا گیا تھا، مگر آج یہ شہر کی سب سے زیادہ تجاوزات زدہ بستیاں بن چکی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وہی افسران جو پنجاب میں تجاوزات ختم کرنے اور ریاستی زمینوں کو واگزار کرانے کے دعوے دار ہیں، خود انہی کالونیوں میں قابض، غیر قانونی اور تجاوزات زدہ مکانات میں سکونت پذیر ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف بیوروکریسی کے اخلاقی و پیشہ ورانہ کردار پر سوالیہ نشان ہے بلکہ عوامی زمین اور وسائل پر احتساب کے فقدان کو بھی آشکار کرتا ہے۔


سپریم کورٹ متعدد فیصلوں میں یہ قرار دے چکی ہے کہ سول سرونٹس آئین اور قانون کے محافظ ہیں اور ان کا بنیادی فریضہ عوامی اور ریاستی مفاد کا تحفظ ہے۔ مگر عملی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ اکثر افسران نے قانون پر عمل درآمد کے بجائے اسے اپنے ذاتی اور طبقاتی مفاد کے لیے موڑنے اور توڑنے کو معمول بنا لیا ہے۔ یہ افسران غیر جانب دار منتظمین کے بجائے طاقتور حلقوں کے ایجنٹ کے طور پر کردار ادا کرتے ہیں۔ اس رویے کے باعث بیوروکریسی کا بڑا حصہ سفید پوش جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔


پاکستان کی بیوروکریسی کی تاریخ آئینی اور قانونی تضادات سے بھری ہوئی ہے۔ سب سے نمایاں مثال پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ہے جسے ماضی میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کہا جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایک وفاقی ریاست میں صوبائی عہدوں پر ایک وفاقی سروس کس طرح قابض ہو سکتی ہے؟ اس سروس کی بنیاد انیس سو چون کے کیڈر رولز پر ہے جو نوآبادیاتی پس منظر میں ترتیب دیے گئے تھے۔ یہ رولز نہ صرف پرانے اور غیر متعلقہ ہیں بلکہ موجودہ وفاقی و پارلیمانی نظام، جو اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد قائم ہوا، سے صریحاً متصادم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا وجود ایک انتظامی دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ پرانے اور فرسودہ ڈھانچے اس لیے زندہ رکھے گئے ہیں تاکہ مخصوص مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کو تحفظ دیا جا سکے، نہ کہ وفاق اور عوامی نظامِ حکومت کو مضبوط کیا جائے۔ یہی پاکستان میں بیوروکریسی کی ابتدا تھی اور آج تک وہی نوآبادیاتی ڈھانچے اور رویے برقرار ہیں۔


پنجاب میں سب سے طاقتور محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ ہے، جو بیوروکریسی کے لا محدود اختیار کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ یہ محکمہ کبھی بھی صوبائی اسمبلی کے کسی قانون کے تحت وجود میں نہیں آیا بلکہ محض رولز آف بزنس کے ذریعے چل رہا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 139 کے تحت رولز آف بزنس محض حکومتی کام کی تقسیم کے لیے بنائے گئے تھے، وہ کسی محکمہ کو قانونی طور پر قائم نہیں کر سکتے۔ یوں یہ محکمہ آئینی بنیاد کے بغیر محض انتظامی صوابدید پر چل رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پالیسی سازی، فیصلے اور قواعد سب چند افسران کی مرضی کے تابع ہیں اور ان پر کوئی پارلیمانی نگرانی موجود نہیں۔ یہی وہ انتظامی خلا ہے جس نے صوبائی نظم و نسق کو بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا گڑھ بنا دیا ہے۔


یہ بے لگامی سب سے زیادہ جی او آرز کے انتظام میں دکھائی دیتی ہے۔ مکانات کی الاٹمنٹ، مرمت اور دیکھ بھال مکمل طور پر کرپشن، اقربا پروری اور سفارش کا شکار ہیں۔ مکانات کی درجہ بندی کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ بہتر الاٹمنٹ ان افسران کو دی جاتی ہے جو اعلیٰ حکام کے قریب ہوں یا ان کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔ اگر ان الاٹمنٹس کا شفاف ریکارڈ سامنے لایا جائے تو برسوں سے جاری بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کا پردہ فاش ہو جائے۔


تجاوزات اس بدعنوانی کی سب سے نمایاں علامت ہیں۔ افسران اپنی خواہشات کے مطابق مکانات کی ساخت بدل دیتے ہیں۔ سبزہ زاروں کو ذاتی لان میں بدل دینا، نوکر چاکر کے کوارٹرز کو غیر قانونی طور پر بڑھا دینا اور عوامی جگہوں کو گھروں میں ضم کر لینا عام بات ہے۔ یہاں تک کہ گلیاں اور راستے بھی غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے مسدود کر دیے جاتے ہیں۔ اس دوران متعلقہ محکمہ کارروائی کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنا رہتا ہے یا بعض اوقات ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کو سہارا دیتا ہے۔


سوال یہ ہے کہ متعلقہ محکمہ ان غیر قانونی اقدامات پر خاموش کیوں ہے؟ اس کی وجہ احتساب کا فقدان ہے۔ نہ صوبائی حکومت اور نہ ہی صوبائی اسمبلی اس محکمے کے اقدامات کا جائزہ لیتی ہے۔ پالیسیاں انتظامی احکامات کے ذریعے بنائی جاتی ہیں اور کبھی کبھار محض رسمی طور پر کابینہ سے منظوری دلوائی جاتی ہے۔ تازہ مثال رہائشی مکانات کی نئی پالیسی ہے جسے نگران کابینہ نے منظور کیا۔ یہ پالیسی کسی قانون پر مبنی نہیں بلکہ ایک انتظامی حکم ہے، جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ مگر اسی پالیسی کے تحت اربوں روپے مالیت کے سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کی جا رہی ہے۔ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی طرزِ عمل عوام کو مالی احتساب کے حق سے محروم کرتا ہے اور پارلیمان کی بالادستی کو کمزور کرتا ہے۔


جی او آرز صرف رہائشی بستیاں نہیں بلکہ ہمارے انتظامی ڈھانچے کا آئینہ ہیں۔ جو افسران شہر بھر میں تجاوزات گراتے ہیں وہی اپنے گھروں کے ماسٹر پلان کو مسخ کر چکے ہیں۔ مکانات کی الاٹمنٹ سے لے کر مرمت تک ہر چیز چند اعلیٰ افسروں کی مرضی پر منحصر ہے۔ یہ رویہ اس ادارہ جاتی زوال کا ثبوت ہے جہاں قوانین عوام کے لیے سخت ہیں مگر اشرافیہ کے لیے چھوٹ موجود ہے۔ اس دوہرے معیار نے عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان دیا ہے۔


اب اس صورتِ حال سے نکلنے کے لیے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے اس محکمے کو باقاعدہ قانون کے تحت لایا جانا چاہیے۔ صوبائی اسمبلی کو اپنے آئینی اختیار کے تحت اس کے قیام، دائرہ کار اور اختیارات کو واضح طور پر طے کرنا ہوگا۔ دوسرا، رہائشی پالیسیوں کو قانون کے تابع کیا جائے اور انہیں عوامی احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔ تیسرا، جی او آرز میں تجاوزات کا مکمل ریکارڈ تیار کیا جائے اور بلا امتیاز ان کا خاتمہ کیا جائے تاکہ اوپر سے احتساب کی ایک مثال قائم ہو۔ آخر میں، افسروں کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ ان کا منصب ذاتی مفاد یا سرپرستوں کی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ آئین اور عوامی مفاد کے تحفظ کے لیے ہے۔


آخرکار یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ جی او آرز لاہور کی سب سے زیادہ تجاوزات زدہ بستیاں اس لیے نہیں ہیں کہ قوانین کمزور ہیں بلکہ اس لیے کہ بیوروکریسی نے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھ لیا ہے۔ جب قانون نافذ کرنے والے خود اس کی خلاف ورزی کریں تو ادارے ٹوٹتے ہیں اور بدعنوانی کو فروغ ملتا ہے۔ اس منافقت کے خاتمے اور عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ بیوروکریسی کو قانون کے تابع کیا جائے اور جی او آرز کو غیر قانونی تجاوزات سے پاک کیا جائے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے پنجاب اور پاکستان میں جمہوری احتساب اور آئینی حکمرانی کا قیام ممکن ہے۔

پیرا کو بالادست قانونی اختیار حاصل ہے، اس لیے اس کی فورس پر لازم ہے کہ جی او آرز میں ہونے والی تمام تجاوزات کو بھی ختم کرے۔ چونکہ ایس اینڈ جی اے ڈی کے پاس کوئی خصوصی قانون موجود نہیں جو پیرا کے قانون پر فوقیت رکھتا ہو، اس لیے قانون کی برابری کا اصول لاگو ہونا چاہیے۔ اگر پیرا پورے صوبے میں سرکاری زمینوں پر قائم تجاوزات گرا رہا ہے تو پھر جی او آرز کیوں مستثنیٰ ہوں، جب کہ یہ بھی سرکاری زمین ہی ہے؟ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔

تحریر: طارق محمود اعوان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos