طاہر مقصود
پاکستان کی سیاست میں جہاں روایتی جماعتیں، مقتدر حلقوں کی حمایت اور خاندانی وراثت کے بل بوتے پر اپنا وجود برقرار رکھتی ہیں، وہاں عمران خان ایک منفرد اور غیر معمولی سیاسی شخصیت کے طور پر اُبھرے ہیں۔ ریپبلک پالیسی تھنک ٹینک کی ملک گیر فیلڈ رپورٹس اور عوامی رائے کی بنیاد پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمران خان آج بھی پاکستان کے سب سے مقبول سیاسی رہنما ہیں، اور یہ مقبولیت معمولی نہیں بلکہ بہت بڑے فرق سے باقی قیادتوں سے آگے ہے۔
عمران خان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کا وہ مزاحمتی کردار ہے جو انہوں نے ملک کے طاقتور اداروں کے خلاف اپنایا۔ پاکستان کی سیاست میں شاید ہی کوئی ایسا رہنما ہو جو بغیر کسی سمجھوتے کے اسٹیب اور طاقتور حلقوں کے خلاف کھل کر بولے۔ ان کی اس مزاحمت کو عوامی سطح پر بے حد پذیرائی ملی ہے۔ عوام انہیں ایک ایسے لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں جو “نہیں” کہنے کی ہمت رکھتا ہے، اور جو ملک کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔
عمران خان کی گرفتاریوں، عدالتی مقدمات اور میڈیا بلیک آؤٹ نے نہ صرف اُن کی مقبولیت کو کم نہیں کیا بلکہ ان کے لیے ہمدردی اور حمایت میں مزید اضافہ کر دیا۔ ریپبلک پالیسی کی فیلڈ انٹریکشنز کے مطابق عام شہری اب انہیں صرف ایک سیاستدان کے طور پر نہیں بلکہ ایک “سیاسی مظلوم” کے طور پر دیکھتے ہیں، جو حق گوئی کی قیمت چکا رہا ہے۔ ان پر جبر اور دباؤ کے باوجود عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ سچ کے ساتھ کھڑا ہے۔
پاکستان کا نوجوان طبقہ، جو کہ آبادی کا تقریباً 64 فیصد ہے، عمران خان کی مقبولیت کا سب سے بڑا ستون ہے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک، نوجوان طبقہ عمران خان کے بیانیے سے جُڑا ہوا ہے۔ انصاف، میرٹ، اور قومی خودداری جیسے نعرے نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں۔ عمران خان نے اس نوجوان نسل سے براہِ راست خطاب کیا ہے، ان کی زبان میں بات کی ہے اور ان کی امیدوں کو سیاسی بیانیے کا حصہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان انہیں صرف ایک لیڈر نہیں بلکہ تبدیلی کی علامت سمجھتے ہیں۔
Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.
شہری مڈل کلاس، جسے طویل عرصے سے سیاست میں نظر انداز کیا گیا، عمران خان کی سب سے وفادار حمایتی بن چکی ہے۔ ڈاکٹرز، انجینئرز، اساتذہ، اور چھوٹے کاروباری حضرات کی ایک بڑی تعداد عمران خان کے ساتھ ہے۔ یہ طبقہ بدعنوانی اور مراعات یافتہ سیاسی نظام سے تنگ آ چکا ہے، اور عمران خان کی باتوں میں انہیں وہ امید نظر آتی ہے جس کی وہ مدتوں سے تلاش میں تھے۔ لاہور، اسلام آباد، کراچی، پشاور اور فیصل آباد جیسے شہروں میں خان کی مقبولیت غیر معمولی سطح پر قائم ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی اوسط درجے کی رہی، اس کے باوجود وہاں عمران خان کی حمایت میں کمی نہیں آئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی مقبولیت صرف حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک بڑے نظریے، بیانیے اور عوامی اعتماد پر قائم ہے۔ عوام ان کی قیادت میں ایک ایسا پاکستان دیکھتے ہیں جو بدعنوانی سے پاک ہو، خودمختار ہو، اور طاقتور طبقات کے تسلط سے آزاد ہو۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، خاص طور پر پنجاب میں، جو ان کا روایتی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ اپنی حکومت کی کارکردگی اور انفراسٹرکچر منصوبوں پر فخر کرتے ہیں، مگر وہ عوامی جوش و جذبے اور نوجوانوں کی امنگوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، اسٹیب سے ان کی قربت اور عمران خان کے خلاف سیاسی کردار نے ان کی ساکھ کو مزید متاثر کیا ہے۔
ریاستی سطح پر عمران خان کی میڈیا پر پابندی اور ان کے بیانات کو روکے جانے کی کوششوں نے بھی ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ عوام، خاص طور پر نوجوان، یوٹیوب، ٹوئٹر، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ کے ذریعے خان کے پیغامات سن اور شیئر کر رہے ہیں۔ یہ ایک “ڈیجیٹل مزاحمت” ہے جو ریاستی سنسرشپ کو ناکام بنا رہی ہے اور عمران خان کی سیاسی موجودگی کو نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ مضبوط بھی کر رہی ہے۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان کا “بالکل نہیں” والا مؤقف عوام کے دلوں میں گھر کر گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو بیرونی دباؤ کا سامنا تھا، عمران خان نے قومی خودداری کا جو بیانیہ دیا، وہ عام پاکستانی کی قومی حمیت کو چھو گیا۔ عوام کو محسوس ہوا کہ وہ ایک ایسا لیڈر ہے جو ملک کے مفادات پر کسی قسم کا سودا نہیں کرے گا۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عمران خان کی مقبولیت محض سیاسی پالیسیوں پر نہیں بلکہ جذباتی تعلق، اصولی موقف، اور جرات مند قیادت پر مبنی ہے۔ وہ عوام کے دلوں میں امید، خودداری، اور تبدیلی کی علامت بن چکے ہیں۔ ریپبلک پالیسی تھنک ٹینک کی جامع رپورٹنگ اور فیلڈ ڈیٹا کی روشنی میں یہ بات پوری شدت سے واضح ہے کہ موجودہ وقت میں عمران خان نہ صرف سب سے زیادہ مقبول رہنما ہیں بلکہ وہ واحد سیاسی شخصیت ہیں جو عوام کے مختلف طبقات کو ایک نعرے، ایک بیانیے اور ایک امید کے تحت یکجا رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے سیاسی افق پر فی الوقت ان جیسا کوئی دوسرا لیڈر نظر نہیں آتا۔