حبیب جالب
سماجی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو سچ پر ڈٹے رہنے کا درس دیتی ہے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی انقلاب کی امید میں جیلوں اور پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ میں گزاری جس پر اُنہیں فخر تھا۔ انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاء الحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔
وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہوگا
مگر زمانے کی باتوں سے ڈر گیا ہوگا
اسے تھا شوق بہت مجھ کو اچھا رکھنے کا
یہ شوق اوروں کو شاید برا لگا ہوگا
کبھی نہ حد ادب سے بڑھے تھے دیدہ و دل
وہ مجھ سے کس لیے کس بات پر خفا ہوگا
مجھے گمان ہے یہ بھی یقین کی حد تک
کسی سے بھی نہ وہ میری طرح ملا ہوگا
کبھی کبھی تو ستاروں کی چھاؤں میں وہ بھی
مرے خیال میں کچھ دیر جاگتا ہوگا
وہ اس کا سادہ و معصوم والہانہ پن
کسی بھی جگ میں کوئی دیوتا بھی کیا ہوگا
نہیں وہ آیا تو جالبؔ گلہ نہ کر اس کا
نہ جانے کیا اسے درپیش مسئلہ ہوگا
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.