Premium Content

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

Print Friendly, PDF & Email

ناصر کاظمی کے کلام میں جہاں ان کے دکھوں کی داستان، زندگی کی یادیں، نئی اور پرانی بستیوں کی رونقیں، ایک بستی سے بچھڑنے کا غم اور دوسری بستی بسانے کی حسرتِ تعمیر ملتی ہے، وہیں وہ اپنے عہد اور اس میں زندگی بسر کرنے کے تقاضوں سے بھی غافل  نہیں رہتے۔ ان کے کلام میں ان کا عہد بولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

ناصر کاظمی کی شخصیت اور شاعری دونوں میں اک عجیب طرح کی سحر انگیزی پائی جاتی ہے۔ اپنی روائیتی لفظیات کے باوجود  انھوں نے غزل کو اپنی طرز ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنورا۔ انھوں نے نظریاتی میلانات سے بلند ہو کر شاعری کی اس لئے ان کا میدان شعر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ وسیع اور متنوع ہے جس میں بہرحال مرکزی حیثیت عشق کی ہے۔ ان کی تمام شاعری اک حیرت کدہ ہے  جس میں داخل ہونے والا دیر تک اس کے سحر میں کھویا رہتا ہے۔

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرے لیے کوئی شایان التماس نہیں

ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں

گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos