نوشین رشید
پاکستان میں مرد و خواتین کی تنخواہوں کا فرق محض ایک معاشی نابرابری نہیں بلکہ گہری جمی ہوئی سماجی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ حالیہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صنفی تنخواہ کا فرق جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس مسئلے کو محض مزدوری کی منڈی تک محدود سمجھنا اس کے حقیقی اثرات سے چشم پوشی کے مترادف ہے، کیونکہ یہ فرق ملک کے سماجی توازن، معاشی ترقی اور صنفی انصاف کے تمام اصولوں پر ضرب لگا رہا ہے۔
صنفی تنخواہ کا فرق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خواتین کو مردوں کے مساوی یا ہم قدر کام کرنے پر کم اجرت دی جاتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں: خواتین کی کم نمائندگی والے شعبوں میں مرتکز ہونا، اجرتی نظام میں شفافیت کا فقدان، اور براہ راست صنفی تعصب۔ تاہم ان عوامل کے پیچھے کارفرما سوچ زیادہ اہم ہے — ایک پدرسری معاشرہ جو خواتین کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتا ہے۔
یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جب خواتین کو برابری کے مواقع دیے جائیں تو وہ معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے خواتین کی معاشی شمولیت کو ترقی کا انجن بنایا ہے۔ پاکستان جیسے ملک، جہاں آبادی کا تقریباً نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے، وہاں ان کی معاشی شرکت میں کمی دراصل قومی پیداوار اور خوشحالی کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔
رپورٹ کے مطابق، دوہزار اکیس تک پاکستان میں مردوں کی ملازمت کی شرح تقریباً اسی فیصد جبکہ خواتین کی صرف تیئیس فیصد تھی۔ یہ فرق محض ایک عددی حقیقت نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین کو روزگار کے مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں۔ اگر وہ ملازمت اختیار بھی کرتی ہیں، تو ان کے لیے تنخواہ، ترقی، تربیت، اور قیادت کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر زرعی شعبے اور غیر رسمی معیشت میں خواتین کی بڑی تعداد تنخواہ کے بغیر کام کرتی ہے۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ خواتین پر صرف کام کی ذمے داریاں نہیں بلکہ گھر، بچوں، بزرگوں اور خاندان کے دیگر افراد کی نگہداشت کی ذمے داریاں بھی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں جب انہیں مالی طور پر بھی کم تر سمجھا جائے، تو یہ دہری ناانصافی بن جاتی ہے۔ اس کا اثر نہ صرف ان کی انفرادی ترقی پر ہوتا ہے بلکہ پورے خاندان اور آنے والی نسلوں پر بھی پڑتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر سال خواتین کا عالمی دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، مگر اس دن کے بعد وہی خواتین کھیتوں، فیکٹریوں یا گھریلو کاموں میں واپس چلی جاتی ہیں جہاں ان کی اجرت یا تو بہت کم ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں۔ سیمیناروں اور قراردادوں کا کوئی اثر ان کے حالاتِ زندگی پر نہیں پڑتا۔
اس مسئلے کی ذمہ داری صرف ریاست پر نہیں بلکہ آجر، قانون ساز، میڈیا اور خود خواتین کی تنظیموں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ آجر اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی اجرتی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیں اور خواتین کو صرف کم تنخواہ والے شعبوں تک محدود نہ رکھیں۔ خواتین ارکانِ اسمبلی کو چاہیے کہ وہ صرف نمائشی شرکت تک محدود نہ رہیں بلکہ عالمی معاہدات کی توثیق اور صنفی مساوات سے متعلق قانون سازی کو اپنی ترجیح بنائیں۔
میڈیا بھی صنفی کرداروں کے تاثر میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ جب تک ڈراموں اور اشتہارات میں مرد کو ہمیشہ باس اور عورت کو ماتحت دکھایا جائے گا، معاشرتی سوچ میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ کردار سازی کا آغاز معاشرے کی ترجمانی سے ہوتا ہے اور میڈیا کو یہ فریضہ بخوبی نبھانا ہوگا۔
آخر میں، یہ بات سمجھنا ناگزیر ہے کہ صنفی تنخواہ کا فرق محض کسی ایک شعبے یا طبقے کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک ایسی دیوار ہے جو پاکستان کو ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ اس دیوار کو گرانا ہوگا — صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عملی اقدامات، قانون سازی، ادارہ جاتی اصلاحات، اور سب سے بڑھ کر سوچ کی تبدیلی سے۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی معیشت اور معاشرت کو ایسے سانچے میں ڈھالے جہاں عورت کو نہ صرف برابری کا درجہ ملے بلکہ وہ اپنے امکانات کو بھرپور طریقے سے حقیقت میں ڈھال سکے۔ بصورتِ دیگر، ہم صرف رپورٹیں پڑھتے رہیں گے اور خواتین کی نسل در نسل قربانیاں ضائع ہوتی رہیں گی۔