عالمی یومِ ذہنی صحت: ایک خاموش عالمی وبا جو فوری اقدام کی متقاضی ہے

[post-views]
[post-views]

ڈاکٹر شبانہ صفدر خان

دنیا کے ذہنی صحت کے عالمی دن پر یہ المناک حقیقت — کہ دنیا میں ہر 43 سیکنڈ بعد کوئی شخص اپنی جان لے لیتا ہے — ایک سخت یاد دہانی ہے کہ ذہنی صحت کو ترجیح دینا اب ایک عالمی ہنگامی ضرورت بن چکا ہے۔ ذہنی دباؤ اب کسی حاشیائی مسئلے کا نام نہیں رہا بلکہ یہ عصرِ حاضر کے سب سے سنگین عالمی صحتی بحرانوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں۔ سب سے افسوسناک علامت خودکشی ہے، جو ہر سال تقریباً سات لاکھ انسانوں کی جان لے لیتی ہے۔ مگر یہ مسئلہ صرف خودکشی تک محدود نہیں؛ بڑھتی ہوئی بے چینی، کام کی جگہوں پر شدید ذہنی تھکن، نوجوانوں میں بڑھتا ہوا ڈپریشن، اور منشیات کے استعمال میں خطرناک اضافہ دنیا بھر کی حکومتوں کی صلاحیتوں کو چیلنج کر رہا ہے۔

ویب سائٹ

مشرقِ بعید میں یہ خاموش وبا سب سے زیادہ نمایاں ہے، جہاں شدید مقابلے بازی کا سماجی دباؤ تباہ کن اثرات پیدا کر رہا ہے۔ جنوبی کوریا، اپنی معاشی کامیابیوں کے باوجود، ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح رکھتا ہے — تقریباً 26 اموات فی ایک لاکھ افراد، جو عالمی اوسط سے دو گنا زیادہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ تعلیمی دباؤ اور غیرانسانی حد تک طویل دفتری اوقات ہیں۔ چین میں بھی “996” یعنی صبح 9 سے رات 9 بجے تک، ہفتے میں چھ دن کام کرنے کے کلچر کے خلاف شدید ردعمل بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر عوامی احتجاج نے کچھ اداروں کو اضافی اوقات کم کرنے پر مجبور کیا، مگر معاشرتی ڈھانچہ اب بھی حد سے زیادہ کام کو کامیابی کی علامت سمجھتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ذہنی صحت کی مؤثر اور سستی سہولیات کی شدید کمی ہے۔ یوں سماجی دباؤ، بدنامی اور علاج کی کمی نے ایک ایسی خاموش وبا کو جنم دیا ہے ۔

یوٹیوب

مغربی دنیا بھی اس بحران سے محفوظ نہیں۔ کووڈ وبا کے دوران ڈپریشن اور بے چینی کے کیسز میں خطرناک اضافہ ہوا جو اب تک کم نہیں ہوا۔ امریکہ اس وقت اپنی دوسری دہائی میں داخل ایک تباہ کن اوپیائی منشیات بحران سے گزر رہا ہے، جہاں ذہنی بیماری اور منشیات کے غلط استعمال کی لکیر تقریباً مٹ چکی ہے۔ افریقہ کے کئی خطوں میں طویل جنگوں، نقل مکانی اور عدم استحکام نے (شدید صدماتی دباؤ) کے شکار نسلیں پیدا کی ہیں، جنہیں کوئی باضابطہ نفسیاتی امداد حاصل نہیں۔ اس عالمی غفلت کے مالی اثرات بھی خوفناک ہیں — غیر علاج شدہ ذہنی امراض کے باعث دنیا بھر میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، جس میں پیداواری صلاحیت میں کمی، صحت کے بڑھتے اخراجات، اور انسانی سرمائے کا ضیاع شامل ہے۔

ٹوئٹر

پاکستان بھی اسی عالمی بحران کی زد میں ہے، مگر افسوس کہ یہاں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں۔ مقامی تحقیق کے مطابق ایک تہائی تک آبادی عام ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے، جبکہ خودکشی کی شرح تیزی سے بڑھ کر تقریباً دس فی ایک لاکھ ہو گئی ہے۔ 2022 تک پاکستان میں خودکشی کی کوشش جرم تھی، جس نے لوگوں کو مدد حاصل کرنے سے روکے رکھا۔ قانون بدل گیا ہے، مگر سماجی بدنامی اب بھی گہری ہے — ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کا اعتراف آج بھی طنز، جج منٹ اور سماجی تنہائی کا باعث بن سکتا ہے۔

فیس بک

جو لوگ ہمت کر کے علاج کی کوشش کرتے ہیں، انہیں ایک ناکارہ نظام کا سامنا ہوتا ہے۔ نجی معالجوں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں، جو عام شہریوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ سرکاری سطح پر ذہنی صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، خصوصاً شہروں سے باہر۔ عوام میں ذہنی صحت کی دیکھ بھال اور احتیاطی تدابیر کا شعور تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

ٹک ٹاک

اب ضرورت ایک ہمہ گیر اور انقلابی اصلاحات کی ہے۔ سب سے پہلے ذہنی صحت کو بنیادی صحت کے نظام کا لازمی حصہ بنانا ہوگا تاکہ فیملی ڈاکٹر مریضوں میں ذہنی دباؤ کی ابتدائی علامات پہچان سکیں اور بروقت رہنمائی فراہم کریں۔ دوسرا، حکومت کو کم لاگت نفسیاتی علاج میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے — کمیونٹی کونسلر، سبسڈی والے کلینک، اور آن لائن تھراپی جیسے ماڈلز کے ذریعے علاج کی رسائی بڑھانا ہوگی۔ تیسرا، کام کی جگہوں پر اصلاحات ناگزیر ہیں — دفتری اوقات کی قانونی حد نافذ کرنا اور ملازمین کی ذہنی صحت کی ذمہ داری آجر پر ڈالنا ضروری ہے۔ آخر میں، حکومتی سطح پر مسلسل آگاہی مہمات چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ذہنی امراض کے خلاف بدنامی کی دیوار کو توڑا جا سکے۔

انسٹاگرام

ذہنی صحت کو نظر انداز کرنا بچت نہیں بلکہ ایک قومی نقصان ہے۔ جو معاشرے اس بحران سے آنکھ چراتے ہیں وہ زندگیوں اور انسانی صلاحیت دونوں کا ناقابلِ تلافی نقصان اٹھاتے ہیں۔ سیول کی عمارتوں سے لے کر شنگھائی کے دفاتر اور اسلام آباد کے اسپتالوں تک پیغام ایک ہی ہے: ذہنی صحت کوئی ضمنی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک خوشحال، صحت مند اور مستحکم قوم کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ویب سائٹ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos