یومِ تکبیر: پاکستان کی جوہری طاقت اور قومی اتحاد کی مثال

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

مئی28 ، یومِ تکبیر، پاکستان کی تاریخ کا ایک غیرمعمولی اور فیصلہ کن لمحہ ہے — وہ دن جب 1998 میں پاکستان نے ایٹمی طاقت بن کر دنیا کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کا واضح پیغام دیا۔۔ یہ کارنامہ نہ صرف مؤثر دفاعی صلاحیت کا ضامن بنا بلکہ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک توازن قائم کرنے کا ذریعہ بھی بنا۔ تاہم، یہ دن جو کہ قومی فخر کی ایک مشترکہ علامت ہونا چاہیے، بدقسمتی سے اکثر سیاسی مفادات کی نذر ہو جاتا ہے اور جماعتی پوائنٹ اسکورنگ کا شکار بن جاتا ہے۔

ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کا سفر نہ تو فوری تھا اور نہ ہی کسی ایک فرد کی کوششوں کا نتیجہ۔ یہ ایک طویل جدوجہد، مسلسل قومی عزم، فنی مہارت، حکمتِ عملی سیاسی جرأت کا نتیجہ تھا۔ 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی دوراندیش قیادت، جنہوں نے اس خواب کی سیاسی بنیاد رکھی، سے لے کر وزیراعظم نواز شریف کا جرأتمندانہ فیصلہ کہ انہوں نے شدید عالمی دباؤ کے باوجود ایٹمی تجربات کیے — ہر قدم ایک مربوط سلسلے کا حصہ تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں پاکستان کے سائنسدانوں، انجینئرز، ماہرینِ فنیات، اور عسکری منصوبہ سازوں کا کردار بھی کسی طور کم اہم نہیں تھا۔

آج جب اس قومی کامیابی کو سیاسی وابستگیوں کے تحت محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو یہ ان بے شمار گمنام ہیروز کی کاوشوں کی توہین ہے۔ اگرچہ تاریخ کا اعتراف ضروری ہے، اسے تقسیم کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

یومِ تکبیر کو محض سیاسی مسابقت کا میدان بنانے کے بجائے، اسے اس حقیقت کی یاد دہانی ہونا چاہیے کہ قومی اتحاد کس قدر عظیم کامیابیاں لا سکتا ہے۔ آج کے غیر یقینی عالمی ماحول میں پاکستان کی ایٹمی قوت پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کی ضامن ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاسی رہنما یہ حقیقت تسلیم کریں کہ قومی دفاعی کامیابیاں انتخابی مفادات سے بلند ہوں۔

حقیقی قومی بلوغت اس بات میں ہے کہ ہم اجتماعی کامیابیوں کو تسلیم کریں اور انہیں داخلی تقسیم سے محفوظ رکھیں۔ یومِ تکبیر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت اتحاد سے بنی تھی — اور صرف اتحاد ہی اسے برقرار رکھ سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos