ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا

جون ایلیا

سادہ، لیکن تیکھی تراشی اور چمکائی ہوئی زبان میں نہایت گہری اور شور انگیز باتیں کہنے والے ہفت زبان شاعر، صحافی، مفکر، مترجم، نثر نگار، دانشور اور بالاعلان نفی پرست اور انارکسٹ جون ایلیا ایک ایسے شاعر تھے جن کی شاعری نے نہ صرف ان کے زمانہ کے ادب نوازوں کے دل جیت لئے بلکہ جنھوں نے اپنے بعد آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے لئے زبان و بیان کے نئے معیارات متعین کئے۔ جون ایلیا نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔ وہ باغی، انقلابی اور روایت شکن تھے لیکن ان کی شاعری کا لہجہ ا تنا مہذب نرم اور غنائی ہے کہ ان کے اشعار میں میر تقی میر کے نشتروں کی طرح سیدھے دل میں اترتے ہوئے سامع یا قاری کو فوری طور پران کی فنی خوبیوں پرغور کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔

ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا

ذات در ذات ہم سفر رہ کر
اجنبی اجنبی کو بھول گیا

صبح تک وجہ جاں کنی تھی جو بات
میں اسے شام ہی کو بھول گیا

عہد وابستگی گزار کے میں
وجہ وابستگی کو بھول گیا

سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا

کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر
ایک میں ہر کسی کو بھول گیا

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا

قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہر غم زندگی کو بھول گیا

خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا

کیا قیامت ہوئی اگر اک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا

سوچ کر اس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بھول گیا

سب برے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بھلا تھا اسی کو بھول گیا

ان سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فرصتی کو بھول گیا

بستیو اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا

اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا

یعنی تم وہ ہو واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا

آخری بت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بت شکن بت گری کو بھول گیا

اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا

اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos