تحریر: حفیظ اللہ خان خٹک
زمان پارک لاہور کا اصل نام پی ایل ایچ پریڈ گراؤنڈ ہے 1936 میں اسکا نام سندرداس پارک رکھا گیا یہاں ہندو رہتے تھے 1947 میں جنرل برکی نے یہاں جالندھر کے پٹھانوں کو آباد کیا اسکا نام زمان پارک رکھ دیا گیا یہیں جاوید برکی، ماجد خان اور عمران خان نے کرکٹ شروع کی۔
زمان پارک اور اُس کے اطراف میں کیا ہو رہا ہے۔زمان پارک اور اُس کے اطراف میں دو روز سے سخت کشیدگی ہے۔ اسلام آباد پولیس، پنجاب پولیس اور رینجرز کل سے علاقے کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی حکم کو بجا لانے کے لیے عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ آئی جی پولیس کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ پولیس غیر مسلح ہے اور میڈیا ذرائع بتا رہے ہیں کہ عمران خان کے گھر میں مسلح لوگ موجود ہیں۔ مختلف ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اُن لوگوں میں بعض لوگوں کا تعلق گلگت بلتستان کی پولیس ہے اور کہا جارہا ہے کہ اُن افراد نے پنجاب اور اسلام آباد پولیس پر بندوقیں تان لی تھیں اور فائر کرنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔
اسلام آباد اور پنجاب پولیس جب بھی آگےبڑھتی ہے تو پی ٹی آئی کے حامی اُنہیں پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ پولیس عوام کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل اور واٹر کینن کا استعمال کرتی ہے۔ اس کے باوجود محض پولیس عمران خان کے گھر کے گیٹ کو ہاتھ لگا کر واپس پلٹ جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اطلاعات آ رہی ہیں کے پولیس گھر کے اندر آنسو گیس کے شیل پھینک رہی ہے اور سیدھے فائر بھی کر رہی ہے۔ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے؟ اس کا کیا ارادہ ہے؟ تاثر تو یہ ابھر رہا ہے کہ کپتان جیت رہا ہے ۔ آج پھر پولیس واپس ہو گئی ہے۔ کہتی ہے کہ پی ایس ایل کا میچ ہو جائے، پھر واپس آئیں گے۔ ہو کیا رہا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ۔ کل تو مقدمہ کی سماعت نہ ہوئی ، مگر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی ہوئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق صاحب کے کمنٹ دلچسپ ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے تحریک انصاف کے وکیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے؟ ایک سیاسی جماعت کے کارکنان پولیس پر حملے کر رہے ہیں، پولیس پر حملہ ریاست پر حملہ ہے۔ پولیس والے لاہور میں ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کر رہے ہیں، حملہ کرنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں۔ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کا اپنا کیا دھرا ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ پی ٹی آئی کارکن پولیس پر پتھراؤ اور پٹرول بم چلا رہے ہیں، پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی جا رہی ہے، ڈی آئی جی کو بھی زخمی کر دیا ہے۔ آئی جی صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ایسا چلتا رہا تو گرفتاریاں ہو ں گی اور مقدمات بنائے جائیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم رکاوٹ کو دور کریں گے اور عدالتی حکم پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے، پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانے پر دہشت گردی کا مقدمہ بنتا ہے، اگر کسی خاص کے لیے عدالتی حکم پر عمل نہیں ہو گا تو یہ عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہو گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 64 افراد زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں ڈی آئی جی آپریشن اسلام آباد شہزاد بخاری بھی شامل ہیں۔ مظاہرین نے پولیس کی واٹر کینن بھی جلادی، پولیس گاڑی کو نقصان پہنچایا، ٹریفک وارڈنز کی موٹرسائیکلیں جلا دیں، 1122 کا فائر ٹینڈر آگ بجھانے پہنچا تو کارکنوں نے اسے بھی آگ لگادی۔ عمران خان نے صبح ساڑھے 4 بجے کے قریب جاری ویڈیو بیان میں کارکنوں کو زمان پارک پہنچنے کی ہدایت کی۔
اب دیکھیں کہ اس سے پہلے کیا ہوا تھا؟ لاہور میں تحریک انصاف کے کارکن ظِل شاہ کی موت سے متعلق ’حقائق چھپانے‘ کے الزام میں عمران خان فواد چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد اور فرخ حبیب پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان، ڈاکٹر یاسمین راشد، فواد چوہدری، فرخ حبیب اور دیگر ملزمان نے‘ ثبوت و حقائق چھپا کر ’ارتکاب جرم‘ کیا ہے۔
اس طرح کے مقدمات ایک نامور راہنما کے خلاف درج کرنے سے حالات مزید خراب ہوتے ہیں لیکن حکومت اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہی۔ ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے اس طرح کے واقعات مزید بگاڑ پیدا کر رہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے الیکشن میں سکیورٹی فراہم کرنے سے معذرت نے بھی کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی یہ بات کر رہے ہیں کہ آئی جی الیکشن کے لیے سکیورٹی نہیں دے سکتے ، لیکن عمران خان کو گرفتار کرنے کے لیے آئی جی صاحب کے پاس پولیس اور وسائل موجود ہیں۔ اس واقع سے پی ٹی آئی کے حامیوں میں بھی اس بات کا تاثر پھیل رہا ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کروانا چاہتی ہے اس لیے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔
اب اس تازہ پیش رفت اور بظاہر حکومتی اور ریاستی ناکامی کے بعد کیا ہوا ہے؟ اب سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردی اور اس قسم کےدیگر دوسرے مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ کپتان کے کسی حامی کا ڈنڈا، پتھر یا گولی پولیس اہلکاروں کی جان لے لیں تو قتل کا مقدمہ کس پر قائم ہو گا؟ کپتان پر! وقت جیسے جیسے گزر رہا ہے، ویسے ویسے اس بات کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ کپتان کا کوئی جوشیلا کارکن طیش میں آ کر ہوش کھو بیٹھا یا غیر ارادی طور پر کچھ کر بیٹھا تو اس کے جرم کا ذمہ دار صرف وہی قرار نہیں پائے گا۔
حکومت اور پی ٹی آئی راہنماؤں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ عدالتی احکامات پر عمل کروانا ضروری ہے۔ عمران خان کو چاہیے کو وہ عدالت میں پیش ہو کر اپنی صفائی دے دیں۔ حکومت کو بھی حوش کا ناخن لینا چاہیے ، انتقامی اور غیر ضرروی کاروائیوں اور مقدمات درج کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔