Premium Content

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا

Print Friendly, PDF & Email

اقبال کی شاعری تصوّرات کی شاعری ہے۔ لیکن جو صفت تصوّرات کو شاعری بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اقبال تشبیہوں، استعاروں اور مخصوص علامتوں کے ذریعہ اپنے افکار کو مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں جس کا تقاضہ ہے کہ افکار کے حسّی متبادل تلاش کئے جائیں تاکہ افکار کو جذبہ کی سطح پر لایا جا سکے اور فکر محض خشک فکر نہ رہ کر اک حسّی اور ذہنی تجربہ بن جائے اور اک مخصوص نوعیت کے ادراک کی شکل اختیار کر لے۔ یہی بات کم و بیش علامتوں کے انتخاب میں بھی سامنے آتی ہے۔

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا

نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر رہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos