ساجدہ تم بھی کمال کرتی ہو، عجیب لوگوں میں رشتہ کروانے لے آئی ہو جبکہ میں نے تمھیں اپنی ڈیمانڈز بتا بھی دی تھیں۔ لیکن تم اپنی عادت سے مجبور ہو۔ دوسری طرف فرمائشیں تمھاری ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
نجمہ بیگم رشتہ کروانے والی وچولن ساجدہ کے سر ہوگئیں۔ تنگ گلی سے گزرتے گزرتے ان کی سانس پھول رہی تھی اور کھلی نالیوں سے اٹھتی بدبو کی لپٹے ان کے ماتھے کے بل بڑھا رہے تھی۔ ساجدہ کو بھی بہت غصہ آرہا تھا کہ آخر نجمہ کے بیٹے میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں جو اب تک کئی لڑکیاں مسترد کرچکی ہیں۔ لہٰذا اس نے بھی مزید رشتے دکھانے سے صاف انکار کردیا۔
ساجدہ اب تم بھی منہ بنا کر بیٹھ جاؤ، دیکھو میں نے کہا تھا کہ لڑکی گوری اور دبلی پتلی ہو، بال لمبے ، پڑھی لکھی بے شک واجبی ہو لیکن جہیز دینے والا خاندان ہو۔ لیکن تم نے جو بھی لڑکیاں اب تک دکھائی ہیں سب کی سب کوئی عینک والی، کوئی موٹی، کوئی پی ایچ ڈی تو کوئی کالی اور کوئی غریب۔ نجمہ غصے سے بولی۔
نجمہ بہن معاف کریں، آپ اپنے بیٹے شیراز کو بھی تو دیکھیں، وہ کون سا پرستان کا شہزادہ ہے۔ رنگ بھی سانولا ہے، پیٹ بھی نکلا ہوا اور عمر بھی درمیانی۔ اس کی عمر کے لڑکے بلکہ مرد اب تک کئی کئی بچوں کے باپ بن چکے ہیں۔ لیکن آپ کی ضد ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
نجمہ جیسی خواتین ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ملیں گی۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جہاں لڑکیاں سپنوں کے راجا کی تمنا کرتی ہیں کہ اچانک کوئی شہزادہ رتھ پر سوار انھیں بیاہنے آجائے گا بالکل اسی طرح لڑکوں اور ان کی ماؤں کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔
آج تک کسی لڑکی نے چپڑاسی، ڈاکیے اور ترکھان کا سپنا نہیں دیکھا اور لڑکوں نے کبھی دھوبن، گھروں میں کام کرنے والی ماسی یا آیا کا خواب نہیں دیکھا۔ حالانکہ وہ بھی انسان ہیں اور ان کے بھی جذبات ہیں۔ لیکن لڑکوں کو اپنے سپنوں کی رانی ہی چاہیے، جو بہت سا جہیز لے کر آئے۔ پڑھی لکھی، خوبصورت اور برسر روزگار ہو اور خاندان کی تمام لڑکیاں جسے دیکھتے ہی حسد کے مارے جل بھن جائیں۔ ساتھ چلے تو معلوم ہو کہ گویا کوئی شہزادی چل رہی ہے، بولے تو موتی جیسے دانت دکھیں اور لبوں سے پھول جھڑیں۔
یہ دُہرا رویہ ہمارے معاشرے کی خاصیت بن کر رہ گیا ہے کہ 50 سال کی عمر کے بوڑھے بھی 18 سال کی دوشیزہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف کوئی بھی لڑکی شادی کے بعد اپنے 30 سال کے شوہر سے وہ تمام آسائشیں طلب کرتی ہے جس کو مہیا کرتے کرتے اس کے باپ کو 55 برس لگ گئے۔
لڑکیاں بھی سب آسائشیں چاہیں گی لیکن 50 سال کی عمر کے بابے کے ساتھ شادی کرنا انھیں ناپسند ہوگا۔ وہ بھی یہی چاہیں گی کہ گھر میں نہ ساس ہو، نہ سسر، اکیلی راجدھانی ہو جہاں وہ ملکہ بن کر ساری زندگی عیش کریں۔ اب اس معاشرے کا بندہ کیا کرے جس کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ انسانوں سے زیادہ اہمیت تو مادی اشیا کی ہے۔ اسی منافقانہ رویے نے نکاح کو مشکل بنادیا ہے۔ لوگ ذمے داری سے بھاگنے لگے ہیں جو یقیناً ایک اچھی نشانی نہیں۔
سوچنا تو یہ چاہیے کہ عام زندگی دیومالائی کہانیوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ زندگی تصورات سے الگ ہو کر بسانا ہوتی ہے اور گھر بسانے کےلیے کئی باتوں کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ زندگی ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کے اصول پر چلتی ہے۔ جہاں دولت چاہیے ہوگی تو عمر پر سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ کہیں سلیقہ شعاری کی ضرورت ہوگی تو وہاں واجبی تعلیم بھی چل سکتی ہے۔ برسر روزگار لڑکی چاہیے تو پھر میاں بیوی کو مل کر گھر کے کام بھی کرنا ہوں گے یا گھر پر خدمت گار رکھنا ہوں گے۔
اصل چیز اخلاق، حسن سلوک، محبت، درگزر اور وفاداری ہے، جس کے سہارے تمام عمر گزاری جاسکتی ہے۔ اگرچہ پیسے کی اہمیت بھی اپنی جگہ موجود ہے تاہم خاندان کی بقا کےلیے آئیڈیل اورسپنوں کی رانی کی تلاش سے گریز ہی بہتر ہوتا ہے۔ ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے باہر نکل کر سوچنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ زندگی اپنی بھرپور رعنائیوں کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر ہو۔