ضیاء الحق کا دورِ حکومت: مذہب، سیاست اور انتہا پسندی کی تشکیل

[post-views]
[post-views]

بیریسٹر نوید قاضی

پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی دور کو مذہب کے سب سے زیادہ سیاسی استعمال کا نمائندہ کہا جائے تو وہ جنرل ضیاء الحق کا دورِ حکومت ہے۔ یہ صرف ایک فوجی آمریت نہیں تھی بلکہ ایک ایسا دور تھا جس میں مذہب کو ریاستی طاقت کا ذریعہ بنایا گیا، قانون سازی کو مذہبی لبادہ دیا گیا اور سماجی رویوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا گیا۔ ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر کے اسے مذہب کے نام پر جائز ٹھہرانے کی بھرپور کوشش کی، اور یہی ان کے دور کا سب سے خطرناک پہلو تھا۔

ریپبلک پالیسی ویب سائٹ فالو کریں

1977

میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ضیاء الحق نے خود کو “اسلام کا محافظ” اور “نظامِ مصطفیٰ” کا داعی بنا کر پیش کیا۔ 1985 کا ریفرنڈم اس بنیاد پر کروایا گیا کہ اگر عوام انہیں ووٹ دیں تو وہ اسلام نافذ کریں گے۔ یہ دراصل ایک سیاسی چال تھی جس کے ذریعے انہوں نے فوجی قبضے کو مذہبی جواز دینے کی کوشش کی۔ عوامی جذبات کو مذہب کے ساتھ جوڑ کر غیر جمہوری اقتدار کو قانونی اور اخلاقی حیثیت دینے کی یہ ایک منفرد مثال تھی۔

ریپبلک پالیسی یوٹیوب فالو کریں

ان کے دور میں کئی اسلامی قوانین متعارف کروائے گئے، جیسے حدود آرڈیننس، شرعی عدالتوں کا قیام اور زکوٰۃ و عشر کا نظام۔ بظاہر یہ اصلاحات اسلامی ریاست کی طرف قدم معلوم ہوتی تھیں لیکن حقیقت میں یہ سیاسی مقاصد کے تحت تھیں۔ ان قوانین کو سیاسی مخالفین، خواتین اور اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یوں مذہب کے پردے میں ریاستی جبر کو مزید مضبوط کر دیا گیا۔

ریپبلک پالیسی ٹوئٹر فالو کریں

خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی ضیاء الحق نے مذہب کو سیاسی ہتھیار بنایا۔ افغان جہاد کو “اسلامی فریضہ” قرار دیا گیا اور امریکہ سے مالی و عسکری امداد حاصل کی گئی۔ اس پالیسی نے پاکستان میں جہادی کلچر، کلاشنکوف کلچر اور مذہبی انتہا پسندی کو جنم دیا۔ مدارس کو جہاد کے مراکز بنایا گیا، خاص مکتبہ فکر کو ریاستی سرپرستی دی گئی اور معاشرے میں نظریاتی تقسیم کو گہرا کر دیا گیا۔

ریپبلک پالیسی فیس بک فالو کریں

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو ضیاء الحق کی پالیسیاں پاکستان کے سیاسی، سماجی اور مذہبی ڈھانچے کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں۔ ان کے متعارف کردہ قوانین آج بھی عدالتی اور سیاسی نظام پر اثر انداز ہیں۔ فرقہ واریت کو بڑھاوا ملا اور ایک اعتدال پسند معاشرہ انتہا پسندی کی طرف دھکیلا گیا۔ اسلام کے نام پر بنائے گئے یہ قوانین دراصل اقتدار کے تسلسل کا ذریعہ تھے، نہ کہ حقیقی اصلاحات۔

ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک فالو کریں

ضیاء الحق کا دعویٰ تھا کہ وہ اسلام نافذ کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوامی رائے کو نظر انداز کر کے اور جمہوریت کو معطل کر کے اسلام کا نفاذ ممکن ہے؟ قرآن و سنت کے مطابق حکمرانی عوامی مشاورت اور انصاف پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ طاقت اور دباؤ کے زور پر۔ ان کی ذاتی زندگی اور حکمرانی کا انداز بھی اسلامی اصولوں کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

ریپبلک پالیسی انسٹاگرام فالو کریں

ان کی موت 17 اگست 1988 کے طیارہ حادثے میں ہوئی، جسے بعض حلقے خدائی مداخلت قرار دیتے ہیں۔ ان کی حکمرانی نے مذہب کو اس قدر سیاسی رنگ دیا کہ وہ خود مذہبی اقدار کے معیار سے بھی باہر نکل چکے تھے۔ اگر وہ مزید اقتدار میں رہتے تو غالب امکان یہی تھا کہ مذہب کے نام پر مزید طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور پاکستان مزید نظریاتی اور سماجی تقسیم کی طرف جاتا۔

ریپبلک پالیسی واٹس ایپ فالو کریں

ضیاء الحق کا دور ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ مذہب ایک مقدس معاملہ ہے اور اس کا سیاسی استعمال نہ صرف اس کی حرمت کو متاثر کرتا ہے بلکہ ریاست کو بھی اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ پاکستان کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب مذہب کو ذاتی اور روحانی دائرے تک محدود رکھا جائے اور ریاستی معاملات آئین، قانون اور جمہوری اصولوں کے مطابق چلائے جائیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو اسلام کی اصل تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے اور معاشرے کو مستحکم کرتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos