تحریر : سبحان احمد
مصنف سوشل ریفارمر ہیں۔
یہ 2005 کی بات ہے جب میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی میں رہائش پذیر تھا اور اگلے سمسٹر کی فیس ادا کرنے کے لیے میرے پاس ایک پائی بھی نہ تھی، پریشانی اور بے چینی بڑھتی گئی اور میں نے کراچی کے اندر حسین آباد علاقے میں ایک ہوزری فیکٹری میں پارٹ ٹائم جاب کرنا شروع کردی، دلچسپ بات یہ ہے کہ وطن عزیز کےمعاشی حالات بلکل موجودہ حالات سے ملتے جلتے تھے اوپر سے آزاد کشمیر میں ہولناک زلزلے نے تباہی مچا دی۔ بہرحال 9000 روپے ماہوار تنخواہ مقرر ہوگئی جوکہ میرے مہینے بھر کے خرچ کے لیے کافی تھی تاہم یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے کے لیے مجھے کم از کم 6000 روپے ہر ماہ اپنے جیب خرچ سے الگ درکار ہوتے تھے۔ میرے والد صاحب مزدور تھے اور ان کے پاس میری تعلیم کے خرچ اٹھانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا البتہ میں اپنے والد کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں کبھی رکاوٹ نہ ڈالی اور مجھے یہ ذمہ داری نہ دی کہ میں گھر کے اخراجات میں بھی اپنا حصہ ڈالوں۔ ارے باتوں ہی باتوں میں ہم کس ڈگر پر چل پڑے۔
آتے ہیں اپنے اصل بات کی طرف کہ زیادہ پیسے کیسے کمائیں؟ جیسا کہ میں نے آپ کو شروع میں ہی بتا دیا کہ میں ایک ہوزری فیکٹری میں پارٹ ٹائم کام کرتا تھا۔ فیکٹری کے مالک عبدالرزاق میمن صاحب بہت ہی نیک دل انسان تھے، انھوں نے مجھے پریشان دیکھا تو میری پریشانی کی وجہ پوچھی۔ میں اپنے دکھ رونے بیٹھ گیا۔۔۔ انھوں نے مجھے تسلی دی اور زندگی بھر کے لیے میری پریشانی مجھ سے دور کردی کہ زیادہ سے زیادہ پیسے کیسے کمانے ہوتے ہیں۔ چلیں میں آپ سے ان کی بتائی ہوئی بات شیئرکرتا ہوں۔
تمھاری فیس کب ادا ہوگی؟ عبدالرزاق صاحب نے مجھ سے سوال کیا، میں نے انھیں بتایا کہ چھ مہینے بعد، کتنی فیس ادا کرنی ہے؟ میں نے بتایا 36000 ہزارروپے۔ اور ان چھ مہینے کی آمدنی؟ میں نے حساب کتاب لگا کر انھیں بتایا۔ تمھاری فیس ادا ہوگئی سمجھو۔۔۔ میں خوش ہوگیا شاید باس اپنی جیب سے ادا کریں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ میری سوالیہ آنکھوں کو دیکھ کر سمجھ گئے پھر مجھے مخاطب کر کے بولے بیٹا میری ان باتوں کو ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لو۔۔۔ انسان کی قسمت میں جو دولت لکھی جاچکی ہوتی ہے وہ مل کر رہتی ہے تاہم یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس رقم کو حلال طریقے سے کمائیں یا حرام راستہ اختیار کریں، زندگی میں جو بھی کام کرو خلوص نیت سے کرو، اللہ پاک کی عبادت کرو اور زیادہ رقم کمانے کی فکر چھوڑ کر جو مل جائے اللہ پاک کا شکر ادا کرو اور زیادہ رقم کمانے سے زیادہ، کمائی ہوئی رقم بچائی کیسے جاسکتی ہے اس پر غور کرو، مثال کے طور پر، تم پردیس میں ہو، کپڑے دھوبی سےدھلواتے ہو، یہ کپڑے خود دھولیاکرو، کھایا ہوا کس نے دیکھا، اس لیے سادہ کھانا کھایاکرو، جس گھر میں رہتے ہو، فضول بجلی نہ جلایاکرو، گھر پر فون کرتے ہوگے، روزانہ کی بجائے ہفتے میں ایک بار کرلیا کرو، لمبی بات کرنے کی بجائے مختصر بات کرلیا کرو، اگر پیدل پہنچ سکتے ہوتو ٹیکسی کرنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ زیادہ رقم کمانا آسان ہے، مگر اس کو بچانا سب سے مشکل ہے۔ میں نے ان باتوں کو قیمتی سمجھا اور یقین کریں ان تمام باتوں پر عمل بھی کیا، آپ میرا یقین کریں میں چھ مہینے بعد اپنی فیس ادا کرکےبہت خوش تھا، عبدالرزاق میمن صاحب کی باتوں پر میں آج بھی عمل کرتا ہوں، آمدنی جتنی بھی ہو، اگر زندگی میں سادگی ہو تو آپ بھی زیادہ رقم کمانے کی فکر چھوڑ کر، اللہ پاک کی نعمتوں کو دوسروں کے لیے بچانے کی فکر میں لگ جائیں گے۔
آئیے اس کا دوسرا پہلو دیکھتے ہیں سادگی، اعتدال بہت ہی اچھا عمل ہے اگر اس پر اکتفا کیا جائے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کے لیے تگ و دو کرنا چھوڑ دیں اور بس صرف یہ نہ سوچیں کے جو نصیب میں ہے مل کے ہی رہے گا۔ یہ بات درست ہے کہ جو نصیب میں ہوتا ہے وہ مل ہی جاتا ہے لیکن اُس کے لیے محنت ضروری ہے۔ عام سی کہاوت ہے کہ محنت میں عظمت ہےاور ہم نے اپنے بڑوں سے سنا بھی ہے کہ محنت کرو گے تو ہی کوئی مقام حاصل کر پاؤ گے۔ آج کل کے دور میں ہر کوئی کہتا ہے کہ میری تو قسمت ہی خراب ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے جو شخص محنت کرتا ہے اُس کو کہیں نہ کہیں سے اُس کی محنت کا صلہ مل جاتا ہے۔ زمانے میں اپنا مقام بنانے کے لیے محنت ضروری ہے ۔ محنت کی بدولت ہی ہم کوئی مقام حاصل کر سکتے ہیں۔