ادارتی تجزیہ
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا بار بار بدلتا مؤقف صوبائی حکومت کی سنجیدگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ ایک موقع پر وہ فوج کو صوبے کا “مہمان” قرار دیتے ہیں اور دوسرے موقع پر باجوڑ میں عام شہریوں کی شہادت کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ اب پشاور جلسے میں اعلان کیا کہ “ہم کسی آپریشن یا بے دخلی کی حمایت نہیں کرتے” اور وفاقی اداروں سے افغانستان سے مذاکرات پر زور دیا۔
یہ تضاد محض ذاتی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی بڑی سیاسی مشکل ہے۔ ایک طرف وہ صوبے میں امن کے نعرے لگا رہے ہیں اور دوسری طرف آئینی حق کے نام پر ڈرون حملوں اور کارروائیوں کو بھی مان رہے ہیں۔ یہ دوغلا پن عوامی اعتماد کو کمزور کرتا ہے اور ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔
پی ٹی آئی قیادت جلسوں میں فوجی آپریشنز، انتخابی دھاندلی اور عمران خان کی گرفتاری کو ایک ہی سلسلۂ مظالم بنا کر پیش کرتی ہے۔ یہ بیانیہ عوامی ہمدردی ضرور سمیٹتا ہے لیکن ریاستی اداروں کے ساتھ کشمکش کو اور بڑھاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کوئی واضح سلامتی پالیسی دے سکتی ہے یا صرف نعرے بازی پر اکتفا کرے گی؟
پاکستان کو آئینی ذمہ داری اور ادارہ جاتی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ گنڈا پور کے متضاد بیانات وقتی طور پر جلسوں کو گرما سکتے ہیں لیکن پالیسی کے بغیر یہ صرف عوام اور ریاست کے درمیان خلیج کو بڑھائیں گے۔
آخرکار، علی امین گنڈا پور اور تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قومی سلامتی کے معاملات محض جلسوں کے نعرے یا سیاسی بیانات سے حل نہیں ہوتے۔ اگر واقعی صوبہ خیبر پختونخوا کو امن دینا ہے تو ایک واضح، مستقل اور آئینی حکمتِ عملی اپنانی ہوگی جو عوامی اعتماد کو بحال کرے اور ریاستی اداروں کے ساتھ تصادم کے بجائے تعاون کو فروغ دے۔ بصورتِ دیگر، متضاد بیانات نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کے امن کو مزید خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں۔