Premium Content

ایک اور آب حیات

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ :کاشف منظور

صنف سول سرونٹ ہیں اور اردو ادب میں گہری دلچسپی رکھتےہیں۔

1880 عیسوی میں شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد نے شاعروں اور ادیبوں کے قصے لکھ کر انہیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ دلائی۔۔ اب تقریبا ایک سو چالیس برس بعد معروف ادیب اور شاعر علی اکبر ناطق نے اپنے معجز اثر قلم سے آزاد کی داستان لکھ کر گویا ان کے عہد کو ہمارے لئے ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ بظاہر فکشن کے اسلوب میں لکھی گئی یہ تحقیقی کاوش عہد آزاد کی الف لیلی ہے۔۔ یہ محمد حسین آزاد کی ہی داستان حیات نہیں بلکہ کئی بلند مرتبہ شاعروں اور شہروں کا احوال بھی ہے۔
مصنف اور محقق۔۔جن کا اصلا یہ یونیورسٹی کے زمانے کا مقالہ ہے۔۔ برسوں کی عرق ریزی کے بعد مزید نکھر کر موجودہ صورت میں سامنے آیا ہے۔یہ کتاب نما مقالہ (یا بصورت دیگر) جہاں آزاد کی بابت چند نئے حقائق سامنے لاتا ہے۔۔ ۔مثلا ڈاکٹر لائٹنر کا ان سے عناد،آ زاد کے وسط ایشیا کے دورے کے اصل وجوہ اور ان کے جذب و دیوانگی کا بھید و کیفیات وغیرہ۔۔ وہیں پر یہ تحریر میر غالب ذوق اور دیگر شعراء کے خصایل اور کمالات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔شروع کے ابواب میں دلی کے اجڑنے بسنے کا احوال انتہائی دلنشیں پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔لکھنو علی گڑھ لدھیانہ وغیرہ سے ہوتے ہوئے لاہور کی داستان ۔۔دراز تر بھی ہے اور لذیز بھی۔۔ایران و افغانستان کا تذکار بھی ذکر آ زاد کے ضمن میں برمحل ہے۔
آ زاد اور اس کتاب کا مرکزی موضوع ہے۔آزاد کیسے اس شہر میں آئے،بسے، علمی تدریسی تصنیفی سرگرمیاں کا بیان تو ہے ہی۔۔لاہور شہر کے اندرون بیرون بڑھنے پھیلنے کے حوالے سے بھی مصنف کی معلومات کافی ہیں۔ درحقیقت اپنے موضوع سے مصنف کی شیفتگی پرانی اور گہری۔۔ایک عمر پر محیط ہے اور ایک لحاظ سے اس کی اپنی سوانح عمری پر روشنی ڈالتی ہے۔

مصنف کے ساتھ ساتھ ہمیں نبیرہ آزاد آ غا سلمان باقر کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ کہ انہوں نے محقق کو قابل قدر رہنمائی فراہم کی۔
آ زاد کے جنازے اور تدفین کا احوال بھی خاصے کی چیز ہے۔آ خر میں آب حیات سے ایک طویل اقتباس اور ماخذ و مراجع کی تفصیلات ہیں۔
‘نولکھی کوٹھی’ کے خالق نے ‘فقیر بستی میں تھا’ کی صورت ہمیں حیات آزاد پر ایک بے مثل کتاب سے نوازا ہے۔ کتاب کے ابواب اور ذیلی ابواب کے نام بیشتر میر بےدماغ کے مصرعوں سے مستعار ہیں جو لطف مطالعہ کو دوچند کر دیتے ہیں۔۔حقیقت تو حقیقت اور اس پر علی اکبر ناطق کا افسانوی انداز ۔۔۔اسد اللہ خان قیامت ہے۔
میری عاجزانہ رائے میں اردو زبان میں ایسا اسلوب زندہ ادیبوں میں شاید صرف تارڑ صاحب کا ہے لیکن ناطق نے نہ صرف اس کو نئی رفعتوں سے ہمکنار کرایا ہے بلکہ اس میں ہزاروں وولٹ کی بجلی اضافی بھر دی ہے۔ بظاہر یہ ایک جاروبی بیان ( sweeping statement) لگےگا لیکن میرے خیال میں ناطق جیسی زوردار اور موثر نثر لکھنے والا کسی اور زبان میں ہو تو ہو کم از کم اردو میں نہیں ہے۔
کتاب حسب روایت عکس پبلشرز نے سلیقے سے چھاپی ہے۔کہیں کہیں پروف اور فقروں کی ساخت کی غلطیاں (میری دانست میں) کھٹکتی ہیں۔امید ہے آئندہ اشاعت میں یہ اسقام دور کر دیے جائیں گے”۔
(علی اکبر ناطق کی تحقیقی کتاب ‘فقیر بستی میں تھا’ پر ایک تبصرہ۔۔)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos