مبشر ندیم
بھارت اور پاکستان، دو پڑوسی ممالک جو ایٹمی طاقت رکھتے ہیں، کے درمیان تعلقات حالیہ دنوں میں شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ اپریل 2025 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والا ایک دہشت گرد حملہ ہے، جس میں 26 افراد، جن میں زیادہ تر بھارتی شہری تھے، ہلاک ہوئے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور کہا کہ پاکستان دہشت گرد گروہوں، جیسے کہ لشکرِ طیبہ، کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ تاہم، اس واقعے نے دونوں ممالک کے درمیان حالات کو خطرناک حد تک بگاڑ دیا ہے۔
اس تنازع کے بعد دونوں ممالک نے سخت اقدامات اٹھائے۔ بھارت نے 7 مئی کو پاکستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں نو مقامات پر میزائل حملے کیے، جنہیں وہ “دہشت گرد کیمپ” قرار دیتا ہے۔ پاکستان نے ان حملوں کو “جنگی عمل” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں 26 شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے چھ مساجد میں تھے۔ پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھارت کے پانچ جنگی طیاروں اور ایک ڈرون کو مار گرایا، جبکہ بھارت نے اس کی تردید کی۔ دونوں ممالک لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر مسلسل گولہ باری کر رہے ہیں، جس میں چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر توپ خانے تک استعمال ہو رہے ہیں۔
سفارتی محاذ پر بھی حالات خراب ہیں۔ بھارت نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا، جو دونوں ممالک کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا اہم معاہدہ ہے۔ واہگہ-اٹاری سرحد بند کر دی گئی، پاکستانی سفارت کاروں اور شہریوں کو نکال دیا گیا، اور ویزوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ پاکستان نے بھی جوابی طور پر تجارت معطل کی، معاہدے کی معطلی کو مسترد کیا، اور خبردار کیا کہ پانی کی سپلائی میں خلل کو جنگ کے مترادف سمجھا جائے گا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے لیے فضائی حدود بند کر دیں، جس سے بین الاقوامی پروازیں متاثر ہوئیں۔
فوجی سطح پر بھی دونوں ممالک نے اپنی تیاریاں تیز کر دیں۔ پاکستان نے 4 مئی کو اپنے میزائل کا تجربہ کیا، جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت نے سرحد کے قریب فوجی مشقیں کیں اور 244 علاقوں میں ڈرلز کا اعلان کیا۔
Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
عالمی برادری اس تنازع کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بند کمرہ اجلاس کیا، جس میں پاکستان سے دہشت گردی کے الزامات پر سوالات کیے گئے۔ امریکہ، یورپی یونین، چین اور آسٹریلیا نے فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خبردار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ عالمی امن کے لیے تباہ کن ہوگی۔
یہ کشیدگی خطے کے استحکام کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر حالات قابو سے باہر ہوئے تو نتائج ناقابل تصور ہو سکتے ہیں۔ معاشی طور پر، پاکستان، جو حال ہی میں آئی ایم ایف سے 7 بلین ڈالر کا قرض لے چکا ہے، کو بھارت کے مقابلے میں زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بنگلہ دیش اور نیپال جیسے چھوٹے ممالک بھی اس تنازع کے اثرات سے پریشان ہیں۔
ابھی حالات نازک ہیں۔ پاکستان نے اشارہ دیا ہے کہ اگر بھارت پیچھے ہٹے تو وہ بھی کشیدگی کم کرنے کو تیار ہے، لیکن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہے اور حملے کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کر رہی ہے۔ عالمی برادری کو امید ہے کہ سفارتی کوششیں دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے سے واپس لا سکیں گی۔