Premium Content

سینما آرٹ کا پھر سے فروغ

Print Friendly, PDF & Email

لاہور کی سڑکوں پر نصب کچرے کے رنگ برنگے ڈبے لمحہ بھر کےلیے آپ کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں اور آپ ٹھہر کر انہیں ضرور دیکھتے ہیں، کیونکہ ان ڈبوں پر آپ کو آرٹ کے بہترین نمونے نظر آتے ہیں۔ یہ آرٹ کبھی سنیما گھروں کے پوسٹرز پر نظر آتا تھا لیکن اب قصۂ پارینہ بنتا جارہا ہے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال اور ڈیجیٹل دور نے دیگر کئی شعبوں کی طری سنیما گھروں پر لگائے جانے والے پوسٹرز اور بل بورڈ کے کام کو بھی زوال سے دوچار کردیا ہے۔ یہ پوسٹرز اور بل بورڈز فنکار ہاتھ سے پینٹ کرتے تھے۔ ان پر فلم میں کام کرنے والے معروف اداکاروں کی تصاویر اور دیگر تفصیلات درج ہوتی تھیں۔

یہ 70 اور 80 کی دہائی کی بات ہے جب پاکستان میں فلم سازی اور سنیما آرٹ کا یہ فن اپنے عروج پر تھا۔ سال میں تقریباً 100 کے قریب فلمیں بنا کرتی تھیں اور اس دور میں پاکستان بھر میں 13 سو سنیما گھر تھے جہاں لوگ جوق در جوق فلمیں دیکھنے جایا کرتے۔ ان سنیما گھروں کو بڑے سائز کے ہورڈنگ اور بل بورڈ سے سجایا جاتا۔ عموماً ان کا سائز 200 فٹ طویل اور 40 فٹ تک چوڑائی ہوتی۔ یہ طویل و عریض پوسٹرز عموماً کئی حصوں میں پینٹ ہوتے جنہیں بعد میں جوڑ دیا جاتا۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دورپاکستانی فلم انڈسٹری کا سنہری دور تھا۔ فلمی اداکار بے حد مقبول اور لوگوں کے آئیڈیل ہوا کرتے تھے، نوجوان، ان اداکاروں کے بالوں کے انداز اور پہناووں کی کاپی کرتے۔ صرف سنیما ہال میں ہی نہیں فلموں کے پوسٹرز اور بل بورڈز مختلف دکانوں پر بھی لگے ہوتے۔ اکثر جگہ ٹاٹ کا پردہ سا دیوار پر لٹکا ہوتا جس پر مختلف فلمی پوسٹرز چپکا دیے جاتے۔ یہ دراصل پبلسٹی کا سستا اور آسان طریقہ تھا۔ جو فنکار یہ پوسٹرز پینٹ کرتے انہیں فلموں کے ٹکٹ کی رقم میں بھی رعایت ملتی تھی۔

ایک دور تھا کہ لاہور کا رائل پارک، جو اب بھی فلمی کاروبار کےلیے جانا جاتا ہے، میں بہت سی ورکشاپس ہوا کرتی تھیں جہاں تجربہ کار کمرشل فنکار کام کرتے تھے اور طلبا کو سکھاتے تھے۔ رائل پارک کے اردگرد بہت سے سنیما گھر تھے۔ ان میں سے اب کچھ کمرشل تھیٹر اور کچھ پارکنگ لاٹس یا ریسٹورنٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

ٹیکنالوجی کو سنیما آرٹ کے زوال کا سبب قراردیا جاسکتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ یہ تھا کہ جب فلمیں کم بننے لگیں تو پروڈیوسرز نے پبلسٹی کا کام کم کردیا اور پیسے بچانے لگے۔ وہ پینٹر کو پیسے دینے کے بجائے کمپیوٹرز سے ڈیجیٹل پرنٹس حاصل کرلیتے۔ لیکن کسی پینٹنگ کی خوبصورتی کو ڈیجیٹل تصویر میں کبھی بھی نقل نہیں کیا جاسکتا۔

کچرے کے ڈبوں پر پینٹ کرنے میں پیسے بہت زیادہ نہیں مگر کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سینما آرٹ کے فروغ کے حوالے سے نئے مواقع پیدا کرے تاکہ سنیما آرٹ سے وابستہ فنکاروں کی بڑی تعداد کو روزگار مل سکے جو جانے کہاں دربدر ہوچکے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos