غزہ میں قحط اور بھوک کا بحران؟

غزہ میں انسانی المیہ اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے، اور دنیا کی بے حسی اس دردناک صورتحال کو اور بھی ہولناک بنا رہی ہے۔ ہزاروں ٹرک جو خوراک اور زندگی بچانے والی ادویات سے لدے ہیں، غزہ کی سرحدوں پر کھڑے ہیں لیکن اسرائیلی حکام انہیں داخلے کی اجازت نہیں دے رہے۔ نتیجتاً، بچوں میں غذائی قلت کے کیسز تشویشناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔

اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ اپریل کے مہینے میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد مارچ کے مقابلے میں 80 فیصد زیادہ ہو چکی ہے۔ چھ ماہ سے دو سال تک کی عمر کے 92 فیصد بچے اور ان کی مائیں اپنی بنیادی غذائی ضروریات سے محروم ہیں۔ جب ایک ناکہ بندی کا نشانہ واضح طور پر معصوم اور بےبس بچے ہوں، تو دنیا کے پاس جارح قوت کو مخاطب کرنے کے لیے مزید کیا دلائل باقی رہ جاتے ہیں؟

یہ ناکہ بندی 2 مارچ سے جاری ہے اور اب دوسرے مہینے میں داخل ہو چکی ہے، جو اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز کے بعد سے سب سے طویل انسانی امداد کی پابندی ہے۔ جنگ سے پہلے روزانہ تقریباً 500 ٹرک خوراک اور دیگر ضروری اشیاء لے کر غزہ پہنچتے تھے، لیکن اب جب کہ ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے، ایک بھی ٹرک کو گزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

اس شدید قلت نے بلیک مارکیٹ کو جنم دیا ہے جہاں خوراک کی قیمتیں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق حالیہ ہفتوں میں 1400 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ غزہ کے شہری یا تو خوراک تک رسائی ہی نہیں رکھتے، یا اگر کبھی رسائی ہو بھی تو وہ اس کی قیمت ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ منظر نامہ کسی قیامت سے کم نہیں: والدین بے بسی کے عالم میں اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھنے پر مجبور ہیں، جبکہ وہ خود بھی فاقوں اور پیاس کی اذیت سہہ رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر سات یا آٹھ افراد پر مشتمل خاندانوں کو ایک ہی ڈبہ مٹر کا بانٹ کر کھانا پڑ رہا ہے – ایک ایسی حقیقت جو تصور سے باہر ہے۔

یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ مکمل طور پر انسانوں کی پیدا کردہ تباہی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی راہ میں جان بوجھ کر روڑے اٹکانا بین الاقوامی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کو روکا نہیں جا سکتا، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں شہری شدید خطرے میں ہوں۔ لیکن اسرائیل کی پالیسیوں نے نہ صرف عالمی قوانین کو روند ڈالا ہے بلکہ انسانیت کے تمام بنیادی اصولوں کو بھی پامال کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بار بار خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو غزہ ایک مکمل قحط کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں یا تو خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں یا محض رسمی بیانات پر اکتفا کر رہی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ انسانی حقوق کا وہ شور و غوغا کہاں چلا جاتا ہے جب مظلوم فلسطینی بچے بھوک سے مر رہے ہوتے ہیں؟

Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content:

یہ صورتحال محض ایک انسانی بحران نہیں بلکہ ایک اخلاقی بحران بھی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار بنے پھرتے ہیں، آج ایک واضح اور عریاں مظلومیت کے سامنے خاموش کیوں ہیں؟ ان کا کردار محض مذمتی بیانات تک محدود کیوں رہ گیا ہے؟ فلسطین کے مظلوم عوام کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں، اور یہی رویہ عالمی ضمیر کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔

اسرائیل کی ناکہ بندی کا مقصد صرف زمینی قبضہ نہیں بلکہ فلسطینی عوام کو ذہنی، جسمانی اور معاشی طور پر توڑنا ہے۔ یہ پالیسی نسل کشی کی ایک خاموش شکل ہے، جس کا ہدف پوری ایک نسل کو ختم کرنا یا اسے کمزور سے کمزور تر بنانا ہے تاکہ مزاحمت کی قوت ختم ہو جائے۔ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جبر کے باوجود بھی مزاحمت ختم نہیں ہوتی، بلکہ وہ اور مضبوط ہو جاتی ہے۔

ایسے میں عالمی برادری، خاص طور پر مسلم دنیا، کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ محض زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرے۔ انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا، عالمی فورمز پر فلسطینیوں کی آواز کو بلند کرنا، اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنا وقت کی ضرورت ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ بحران کسی ایک خطے یا قوم تک محدود نہیں رہے گا۔ انسانیت کا ہر بحران اپنی گونج پوری دنیا میں چھوڑتا ہے، اور اگر آج اسے روکا نہ گیا تو کل یہ آگ کسی اور دروازے پر بھی دستک دے سکتی ہے۔

آخر میں، یہ کہنا بجا ہوگا کہ غزہ کی صورتحال نے دنیا کو ایک آئینہ دکھایا ہے جس میں انسانی بے حسی، عالمی سیاست کی منافقت اور طاقت کی اندھی ہوس صاف نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر اندھیری رات کے بعد سویرا ضرور ہوتا ہے، اور امید کی یہی کرن ہمیں مایوسی کے سمندر میں ڈوبنے سے بچاتی ہے۔


صفیہ رمضان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos