پہلگام حملہ: بھارت کی سفارتی ناکامی

[post-views]
[post-views]

خالد مسعود خان

بھارتی سفارت کاری کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب 22 اپریل کے پہلگام حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک محتاط بیان جاری کیا جس میں نہ صرف بھارت کے مؤقف کی تائید سے گریز کیا گیا بلکہ کسی بھی مرحلے پر پاکستان یا پہلگام کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں جنوبی ایشیا کی پیچیدہ سیاست میں ٹھوس شواہد کے بغیر مداخلت سے گریز کرتی ہیں۔

پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے فوری طور پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی حکمت عملی اپنائی، لیکن اقوام متحدہ کے بیان نے دہشت گردی کی عمومی مذمت پر اکتفا کیا اور متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کی۔ خاص بات یہ ہے کہ بیان میں خطے کو ’’جموں و کشمیر‘‘ کہا گیا، جو بھارت کے علاقائی دعوے کی بجائے عالمی سطح پر تسلیم شدہ حیثیت کی غمازی کرتا ہے۔ یہ ایک بظاہر چھوٹی مگر بڑی سفارتی کامیابی تھی جس میں پاکستان نے چین کے ساتھ قریبی تعاون کیا۔

بھارت کی ناکامی کی بڑی وجہ اس کا بین الاقوامی سفارتی آداب اور تقاضوں کو نظر انداز کرنا رہا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت اور قومی میڈیا نے پاکستان پر الزامات کی شدت سے مہم چلائی، مگر عالمی سطح پر شواہد کے بغیر یہ مؤقف پذیرائی حاصل نہ کر سکا۔ امریکا سمیت کئی طاقتوں نے دہشت گردی کی مذمت ضرور کی، مگر بھارت کے الزامات کی تصدیق کرنے سے گریز کرتے ہوئے تمام فریقوں کو صبر و تحمل کی تلقین کی۔

پاکستان نے اس موقع پر ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے متوازن اور قانونی اصولوں پر مبنی مؤقف اختیار کیا۔ اس نے نہ صرف الزامات کو مسترد کیا بلکہ کسی بھی غیر جانب دار بین الاقوامی تحقیقاتی عمل میں تعاون کی پیشکش کی، جو عالمی برادری کے لیے قابل قبول اور حقیقت پسندانہ مؤقف ثابت ہوا۔ اس سفارتی حکمت عملی نے پاکستان کو وقتی برتری دلائی، تاہم یہ کامیابی مستقل نہیں اور اسے برقرار رکھنے کے لیے شفافیت، قانون کی پاسداری اور مسلسل سفارتی محاذ پر سنجیدہ کوششیں ناگزیر ہیں۔

بھارت کے لیے یہ واقعہ نہ صرف ایک سفارتی شکست ہے بلکہ یہ سبق بھی ہے کہ داخلی سیاسی نعروں کو بین الاقوامی پالیسی میں تبدیل کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ آج کی بدلتی دنیا میں سفارت کاری صرف جذباتی نعروں سے نہیں بلکہ ٹھوس شواہد اور پختہ حکمت عملی سے کامیاب ہوتی ہے۔

آخر میں، پہلگام واقعے کا سفارتی نتیجہ اس حقیقت کو مزید واضح کرتا ہے کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ حیثیت، دلیل اور قانونی جواز کی بنیاد پر حاصل کی جاتی ہے، نہ کہ صرف دعوؤں اور دباؤ کے ذریعے۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے لیے یہ لمحہ ایک اہم یاد دہانی ہے کہ جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں قیامِ امن کے لیے دلیل، مکالمے اور حقیقت پر مبنی سفارت کاری ہی واحد راستہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos