سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ممکنہ ایٹمی جنگ کو روک دیا۔
یہ تنازع اُس وقت شروع ہوا جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کا الزام پاکستان پر لگایا۔ اس کے بعد 6 اور 7 مئی کی رات بھارت نے پنجاب اور آزاد کشمیر میں فضائی حملے کیے، جن میں عام شہریوں کی جانیں گئیں۔ جواب میں پاکستان نے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے۔
دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر ڈرون حملے بھی کیے اور ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ حالات اتنے بگڑ گئے تھے کہ جنگ کسی بھی وقت ایٹمی صورت اختیار کر سکتی تھی، لیکن امریکی مداخلت سے دونوں ملک پیچھے ہٹ گئے۔ 10 مئی کو ٹرمپ نے اعلان کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی ہو گئی ہے۔
ٹرمپ نے امریکی فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا: “صورتحال اتنی خراب ہو چکی تھی کہ ایٹمی جنگ چھِڑ سکتی تھی۔” انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو پیچھے ہٹانا “میری بہت بڑی کامیابی ہے، چاہے مجھے اس کا کریڈٹ نہ دیا جائے۔”
ٹرمپ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان سخت غصہ اور ردعمل جاری تھا۔ انہوں نے کہا، “اگلا قدم ایٹمی ہتھیار ہوتا، اور یہ سب سے خطرناک چیز ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وہ تجارت کو امن کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی پاکستان کے ساتھ بہت اچھی بات چیت ہوئی۔ “ہم پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتے، کیونکہ دو طرفہ امن میں دونوں فریق شامل ہوتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ ذہین ہیں اور وہاں کی اشیاء بہت عمدہ ہوتی ہیں، لیکن تجارت بہت کم ہے۔ اس مہینے امریکہ نے پاکستانی اشیاء پر 29 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے، جبکہ حکومت پاکستان تجارتی توازن بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔
ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ تجارت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے امریکی اشیاء پر بہت زیادہ ٹیکس لگا رکھا ہے، لیکن اب وہ تمام ٹیکس ختم کرنے کو تیار ہے۔ انہوں نے کہا، “یہ معاہدہ جلد ہو جائے گا۔”
اس ہفتے کے دوران یہ تیسری بار تھا جب ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے دونوں ملکوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر جنگ جاری رہی تو امریکہ کوئی تجارت نہیں کرے گا۔
امریکی کوششوں سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہفتے کی کشیدگی کا خاتمہ ہوا۔ اس دوران بھارتی حملوں میں پاکستان کے 40 شہری جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جبکہ 121 افراد زخمی ہوئے۔ پاکستانی فوج کے 13 جوان شہید اور 75 سے زائد زخمی ہوئے۔
دوسری طرف برطانیہ بھی امن کی کوششوں میں شامل ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے اسلام آباد میں کہا کہ برطانیہ امریکہ کے ساتھ مل کر جنگ بندی کو مستقل بنانے اور بات چیت کو آگے بڑھانے پر کام کر رہا ہے۔
انہوں نے بھارت کی جانب سے 23 اپریل کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے پر کہا کہ دونوں ملکوں کو معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔
پاکستانی حکام کے مطابق بھارت نے پانی کے معاہدے کی کئی بار خلاف ورزی کی ہے، اور اب پاکستان بین الاقوامی سطح پر قانونی کارروائی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ بندی تو ہو چکی ہے، لیکن حالات اب بھی نازک ہیں اور مستقل امن کے لیے مسلسل سفارتی کوششیں ضروری ہیں۔













