تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں کی گئی ایک جامع طبی تحقیق نے روایتی طب کے اس قدیم دعوے کو سائنسی بنیادوں پر درست ثابت کر دیا ہے کہ ہلدی بدہضمی کے علاج میں مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اس تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق ہلدی میں پایا جانے والا قدرتی مرکب کرکیومن بدہضمی اور معدے کی تیزابیت کے علاج میں استعمال ہونے والی معروف دوا اومیپریزول جتنا مؤثر ہو سکتا ہے۔
کرکیومن کو اس کی قدرتی سوزش کم کرنے والی اور جراثیم کش خصوصیات کے باعث جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا میں ہلدی کو صدیوں سے روایتی علاج کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، خاص طور پر معدے اور ہاضمے کے مسائل میں۔ تاہم، یہ پہلا موقع ہے کہ ایک باقاعدہ تقابلی طبی تحقیق کے ذریعے ہلدی کی افادیت کو جدید سائنسی اصولوں کی روشنی میں جانچا گیا۔
تحقیق 2019 سے 2021 کے درمیان تھائی لینڈ کے مختلف اسپتالوں میں کی گئی، جس میں 18 سے 70 سال کی عمر کے 206 ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا جو بدہضمی اور معدے کی دیگر علامات کا مستقل شکار تھے۔ تحقیق کے اختتام تک 151 شرکاء نے مکمل طور پر اس میں شرکت جاری رکھی۔
تمام شرکاء کو تین مختلف گروپوں میں تقسیم کیا گیا
پہلا گروپ صرف ہلدی استعمال کرنے والوں پر مشتمل تھا جنہیں دن میں چار مرتبہ دو سو پچاس ملی گرام کرکیومن کے دو کپسول دیے گئے
دوسرا گروپ اومیپریزول استعمال کرنے والوں پر مشتمل تھا جنہیں روزانہ ایک بیس ملی گرام کپسول دیا گیا ساتھ میں دو نقلی کپسول
تیسرا گروپ ان افراد پر مشتمل تھا جنہیں ہلدی اور اومیپریزول دونوں دیے گئے
تحقیق کے آغاز پر تینوں گروپوں میں بدہضمی کی علامات تقریباً ایک جیسی تھیں۔ پھر 28 اور 56 دن بعد مریضوں کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تاکہ علامات میں کسی بہتری کا جائزہ لیا جا سکے۔
نتائج حیرت انگیز طور پر یکساں نکلے۔ تینوں گروپوں کے مریضوں میں بدہضمی کی علامات میں نمایاں بہتری دیکھی گئی۔ خاص بات یہ تھی کہ کرکیومن کا استعمال نہ صرف محفوظ رہا بلکہ اس کے کوئی مضر اثرات بھی سامنے نہیں آئے، اور اس کی افادیت دوا کے برابر پائی گئی۔
یہ تحقیق ایک اہم سائنسی سنگ میل ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہلدی قدرتی اور سستا متبادل ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو کیمیکل دواؤں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہتے ہیں یا جنہیں ان دواؤں کے مضر اثرات کا سامنا ہوتا ہے۔
تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی علاج شروع کرنے سے قبل معالج سے مشورہ ضرور لیا جائے، خاص طور پر اگر کسی فرد کو پہلے سے کوئی بیماری یا حساسیت ہو۔