مزاح اور سچائی کے سنگم پر: حامد عتیق سرور سے ایک یادگار ملاقات

[post-views]
[post-views]

تحریر: کاشف منظور

ادبی دنیا میں بعض لمحات ایسے ہوتے ہیں جو صرف خوشگوار حیرت ہی نہیں، بلکہ تخلیقی شعور کے در کھولنے کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔ میرے لیے بھی ایک ایسا لمحہ اس وقت آیا جب میں نے سر حامد عتیق سرور کو اپنے دفتر میں موجود پایا۔ یہ محض ایک اتفاقی ملاقات نہ تھی، بلکہ ایک عہد ساز مزاح نگار، شاعر اور تخلیق کار سے براہِ راست مکالمے کا موقع تھا۔ حامد عتیق کی شاعری سے پہلے پہل تعارف محترم آصف انصاری کے توسط سے ہوا تھا، لیکن یہ ملاقات اس تعارف کو اک نئی جہت میں لے گئی۔

یہ لمحہ ایک خواب کی طرح تھا – حقیقت اور حیرت کے بیچ معلق۔ شاعری میں خواب و خیال کی خصوصیات تو عام ہوتی ہیں، مگر خواب کو حقیقت میں بدلتے دیکھنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔ میں نے اسی کیفیت کو غالب کے اس مصرعے میں سمیٹا کہ: “ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں”

یہ ملاقات محض رسمی تعارف پر تمام نہیں ہوئی۔ سر حامد عتیق نے اپنی چند ادبی کاوشوں کی انجام دہی کے لیے مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے بعض ذمہ داریاں بھی سونپیں۔ میرے جیسے شخص کے لیے، جو خود کو صرف ایک “قاری” سمجھتا ہے، یہ کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ میں نے فوری طور پر حامی بھری اور یوں جیسے جیمز جوائس کی مولی بلوم کی طرح ایک بے ساختہ والہانہ انداز میں دل و جان سے “اقرار” کہا

اسی پر بس نہیں، سر حامد نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ بیک وقت تین کتب شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ادب کے شوقین افراد جانتے ہیں کہ یہ اعلان کسی “ادبی آتشبازی” سے کم نہیں تھا۔ خاص طور پر جب اس میں “اٹھارویں کا چاند” جیسے شاہکار کا نیا ایڈیشن بھی شامل ہو، جو نہ صرف ادبی ذوق کی ضیافت ہے بلکہ اردو غزل کو مزاح کے رنگ میں رنگنے کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

میں نے ان کی شاعری پر ایک مرتبہ لکھا تھا کہ یہ ایک ایسا امتزاج ہے جو کلاسیکی اردو کی پاکیزگی، مزاح کی شگفتگی، اور روزمرہ زندگی کی تلخی کو ایک ہنر مندانہ توازن کے ساتھ جوڑتا ہے۔ ان کی غزل گوئی میں جو “مکالماتی غیر سنجیدگی” ہے، وہ دراصل سنجیدہ شعور کی ایک ذیلی پرت ہے۔ ان کے مصرعوں میں چمکدار ذکاوت، برمحل طنز اور لطافت سے لبریز “اردوئے معلیٰ” کا ایک نیا چہرہ نظر آتا ہے۔

ان کی غزلوں کی ساخت، زبان، اور لسانی چالاکی محض “مزاح” نہیں بلکہ تنقیدی شعور کا مظہر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی پیروڈی غزلیں صرف مزاحیہ نہیں بلکہ ذہنی ارتعاش پیدا کرنے والی ہوتی ہیں۔ ان کی پیروڈی غزل “اس کے لڑکا ہوا، میں نے غزلیں کہیں” محض ایک ظریفانہ قطعہ نہیں، بلکہ اردو شاعری کی اس روایت کی توسیع ہے جہاں جدت، روایت اور خود احتسابی ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔

چند اشعار بطور حوالہ ملاحظہ ہوں:

“نازنیں کا جنم دن منایا گیا چار عاشق تھے، سب کو بلایا گیا اک نے پیسے دیے، اک نے تحفہ دیا اک نے دھوکا دیا، میں نے غزلیں کہیں”

“ملک پر جب بھی غاصب نے قبضہ کیا آپ لڑتے رہے، آپ کا حوصلہ میں تھا مارا ہوا تنگیٔ رزق کا سو قصیدہ لکھا، میں نے غزلیں کہیں”

یہ اشعار معاشرتی تضادات، سیاسی منافقت، اور ادبی بےحسی کا ایسا آئینہ ہیں جس میں ہر قاری اپنا عکس دیکھ سکتا ہے۔ ان کا کلام نہ صرف ادبی روایت سے جڑا ہے بلکہ جدید شہری زندگی کے ناپختہ رویوں پر بھی چوٹ کرتا ہے۔

بےساختگی، طبعی روانی، اور مزاحیہ پیرایہ بیان کے ساتھ ساتھ، سر حامد کی شاعری میں برہنہ حقیقت پسندی یعنی غیر جادوئی، تلخ مگر حقیقت پسندانہ روش بھی موجود ہے۔ وہ نظموں میں فیض کی “ہارٹ اٹیک” جیسی نظم کی پیروڈی کے ذریعے دکھاتے ہیں کہ شوخی اور گستاخی کے درمیان ایک باریک مگر جراتمندانہ حد فاصل ہوتی ہے، اور وہ اس پر پوری مہارت سے رقص کرتے ہیں۔

ان کا کلام اس بات کا غماز ہے کہ اردو مزاحیہ شاعری صرف ہنسانے کا ذریعہ نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہے جو سماج، ریاست اور فرد تینوں کے چہروں سے نقاب ہٹا دیتا ہے۔


نتیجہ: انتظار کا اختتام قریب ہے

سر حامد عتیق سرور کی تین کتب کی اشاعت ادب دوستوں کے لیے یقینا ایک بڑی خبر ہے۔ ان کی زبان پر خلاقانہ قدرت، لہجے میں برجستگی، موضوعات میں وسعت، اور اندازِ بیان میں شوخی کے ساتھ تہہ دار سنجیدگی انہیں عصر حاضر کے نمایاں ترین مزاح نگاروں اور غزل گو شعرا میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اب جبکہ ان کی نئی کتب کی آمد متوقع ہے، ادبی حلقے بلاشبہ ایک نئے فکری وَ ذائقے کے لیے تیار ہو جائیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos