امریکہ اور اسرائیل کی ایران کے خلاف مذموم سازشیں

[post-views]
[post-views]

محمد ناصر رمضان

“اب معاملہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے کا نہیں، بلکہ نظام کو اندر سے گرانے کا ہے۔”

تیرہ جون 2025 کو اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام اور روایتی عسکری صلاحیتوں پر ایک ہمہ گیر حملہ شروع کیا۔ ان حملوں کی ابتدائی لہر میں حساس اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں جوہری سائنسدانوں اور اعلیٰ فوجی کمانڈروں سمیت پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی اور ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر علی حاجی زادہ شامل تھے۔ ایران نے وسیع پیمانے پر جوابی کارروائی کی، اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ کا خدشہ پیدا ہوا، جو پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

ابتدائی طور پر امریکہ نے اس کشیدگی سے لاعلمی ظاہر کی، تاہم پنٹاگون کے قریب ایک پیزا شاپ میں حملے سے کچھ دیر قبل پیزا کے آرڈرز میں غیرمعمولی اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکی حکام کو حملے کی پیشگی اطلاع تھی۔ یہ اس وقت ہوا جب امریکہ 2018 کے بعد پہلی بار براہِ راست ایران سے عسکری طور پر ملوث ہوا۔

یہ صورتحال بات چیت یا ایران کی ممکنہ پسپائی کے بجائے کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے۔ اس سے امریکہ کی ثالثی کی ساکھ متاثر ہوئی ہے، اور یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہو جائے۔ مزید برآں، اگر ایران آبنائے ہرمز کو بند کرتا ہے تو عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں، جس کے اثرات امریکی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔

اسرائیل کا مقصد صرف ایران کی جوہری افزودگی کو روکنا نہیں، بلکہ ایران میں نظام کی تبدیلی بھی ہے۔ اسرائیل کو ایران کی مذہبی سوچ اور قیادت سے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے 1996، ستمبر 2002، اور حالیہ حملے سے قبل بارہا یہ دعویٰ کیا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے۔ حالانکہ ایران کے سپریم لیڈر نے جوہری ہتھیاروں کے خلاف فتویٰ دے رکھا ہے، اور 25 مارچ 2025 کو امریکی کانگریس میں پیش کی گئی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا اور مذاکرات کی طرف مائل ہے۔

اسرائیل کی اصل تشویش پاسدارانِ انقلاب اور رہبرِ اعلیٰ کے ادارے سے ہے۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر ایران کے سپریم لیڈر کو ہٹا دیا جائے تو یہ تنازع ختم ہو جائے گا۔

دوسری جانب، ایران کے اصلاح پسند صدر مسعود پژشکیان سفارتی ترقی کی کوششوں میں مصروف ہیں، لیکن نظام کی تبدیلی کا کھیل ایرانی خودمختاری کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ امریکہ ایران سے جنگ بندی کے بجائے مکمل تسلیم چاہتا ہے، جیسا کہ اس نے ماضی میں عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خلاف کیا تھا۔ تاہم، موجودہ تنازعہ خطے کی سلامتی اور مغربی دنیا کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرے گا۔

ایران نے ماضی کے تنازعات سے سیکھا ہے، جس سے اس کی مزاحمت کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایرانی مسلح افواج کے کمانڈر کے مطابق وہ چار سال تک جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ایران کی معیشت کمزور ہے، مگر اس تنازعے میں اسرائیل کو زیادہ معاشی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ تنازع سابق امریکی صدر ٹرمپ کے “میگا” اور “مزید جنگیں نہیں” کے بیانیے کو بھی متاثر کرے گا۔

اسرائیل کا ہدف ایران میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ نے ایران کے تین جوہری مراکز (فردو، نطنز، اور اصفہان) پر حملے کیے اور فردو جیسے اہم افزودگی مرکز کو تباہ کر دیا۔ ان حملوں کا مقصد ایران کی میزائل صلاحیت کو محدود کرنا اور امریکہ کو اس جنگ میں شامل کرنا ہے۔ ان عزائم کی نوعیت وہی ہے جو شام میں بشار الاسد کے خلاف کی گئی کارروائیوں میں دیکھی گئی تھی۔

البتہ اس مرتبہ ایران نے ہائپرسونک میزائلوں سے جوابی کارروائی کی ہے، جو اسرائیل کے اندازوں سے باہر تھی۔

لہٰذا، دنیا کی بڑی طاقتوں کو اسرائیل کو ایران کے خلاف جارحیت اور غزہ کے بے گناہوں کے قتلِ عام سے روکنا چاہیے۔ چین اور مغربی ممالک کو چاہیے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین سنجیدہ مذاکرات اور معاہدات کی راہ ہموار کریں، بصورتِ دیگر یہ تنازع نہ صرف فریقین بلکہ عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos