تسنیم تبسم
“دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ہوتی” — یہ جملہ محض معاشیات کا اصول نہیں بلکہ انسانی زندگی، اجتماعی نظام اور ریاستی حکمرانی کے لیے ایک بنیادی حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس قول کا مفہوم بظاہر سادہ ہے، لیکن اس کی تہہ میں انسانی فطرت، اقتصادیات، اور پالیسی سازی کا ایک گہرا اور پیچیدہ منظرنامہ پوشیدہ ہے۔ ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ فلاں سہولت مفت دی جائے گی، فلاں سروس پر سبسڈی ہوگی، یا ریاست فلاں طبقے کو بلا معاوضہ فائدہ دے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس “مفت” کی قیمت کون ادا کرتا ہے؟ اور اس سوچ نے معاشروں اور معیشتوں کو کس سمت میں دھکیل دیا ہے؟
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں “مفت” کی اصطلاح نہ صرف سیاسی ایجنڈوں کا جزو بن چکی ہے بلکہ عوامی ذہن میں بھی یہ ایک بنیادی مطالبہ بن گئی ہے۔ عوام بجا طور پر یہ چاہتے ہیں کہ انہیں صحت، تعلیم، پینے کا صاف پانی، سستی بجلی، اور بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ لیکن یہ خواہش جب بلاشرط “مفت” کے تصور سے جُڑ جاتی ہے تو ایک خطرناک مغالطہ جنم لیتا ہے۔ ریاست جب مفت بجلی یا آٹے کا اعلان کرتی ہے، تو درحقیقت وہ اس کا بوجھ یا تو ٹیکس دہندگان پر ڈالتی ہے، یا اندرونی و بیرونی قرضوں سے پورا کرتی ہے، یا افراط زر کے ذریعے کرنسی کی قدر گراتی ہے۔ یوں یہ “مفت” کسی نہ کسی صورت میں بہت مہنگی ثابت ہوتی ہے — یا آج، یا کل۔
پاکستان کی معیشت اس وقت گردشی قرضوں، غیر ملکی ادائیگیوں، بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے اور عوامی عدم اطمینان جیسے مسائل کا شکار ہے۔ ایسے میں حکومت جب بغیر مالی منصوبہ بندی کے رعایتی یا مفت سہولیات دیتی ہے، تو وہ دراصل ایک وقتی ریلیف کے بدلے میں طویل مدتی معاشی عدم استحکام خرید رہی ہوتی ہے۔ بجلی کی مفت فراہمی کا اعلان ایک سیاسی فیصلہ ہو سکتا ہے، لیکن اگر اس کی قیمت ریاستی اداروں کی مالی تباہی، لوڈشیڈنگ، اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کی مزید شرائط کی صورت میں سامنے آئے، تو یہ فیصلہ اخلاقی اور معاشی دونوں حوالوں سے قابلِ اعتراض بن جاتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ عوام میں مفت اشیاء کی فراہمی کا تصور اکثر ذمہ داری سے متصادم ہوتا ہے۔ جب کچھ چیزیں بلا محنت اور بلا قیمت دستیاب ہونے لگیں، تو ان کی قدر کم ہو جاتی ہے، اور ان کے ضیاع کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب کسی علاقے میں پانی مفت فراہم کیا جاتا ہے، تو اس کا استعمال بے احتیاطی سے ہوتا ہے، اور پانی کا بحران مزید شدت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح، جب تعلیمی اداروں میں فیس بالکل ختم کر دی جاتی ہے، تو بعض اوقات نہ طلبہ کی دلچسپی برقرار رہتی ہے اور نہ ہی اساتذہ کی کارکردگی پر توجہ دی جاتی ہے۔
“مفت” کی اصطلاح صرف معاشی نہیں بلکہ اخلاقی بحران کو بھی جنم دیتی ہے۔ معاشرہ جب بلا محنت کچھ حاصل کرنے کا عادی بن جائے، تو حلال و حرام، محنت و قابلیت، اور خودداری و انحصار کے فرق مٹنے لگتے ہیں۔ ایسی ذہنیت میں بدعنوانی، سفارش، اور اقربا پروری پنپتی ہے، اور افراد کے اندر یہ احساس مٹنے لگتا ہے کہ کچھ پانے کے لیے کچھ قربان کرنا ضروری ہے۔
اسی اصول کا اطلاق بین الاقوامی تعلقات پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کو جب بیرونی امداد، قرض یا سہولتیں “مفت” میں دی جاتی ہیں، تو ان کے بدلے کچھ نہ کچھ سیاسی، سفارتی یا اقتصادی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی بار قومی خودمختاری پر سوال اٹھتا ہے، اور پالیسیوں میں بیرونی دباؤ کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
تاہم اس اصول کو سمجھنا مایوسی یا بے رحمی کی علامت نہیں بلکہ ایک حقیقت پسندانہ، ذمہ دار اور باوقار قومی رویے کا تقاضا ہے۔ یہ کہنا کہ “کوئی چیز مفت نہیں” دراصل اس اعتراف کا نام ہے کہ ہم سب کو بطور فرد، ادارہ اور ریاست اپنے فیصلوں، نعروں اور پالیسیوں کی قیمت سمجھنی اور ادا کرنی ہوگی۔ فلاحی ریاست کا قیام یقینی طور پر ایک اعلیٰ مقصد ہے، لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اس کی مالیاتی بنیادیں مستحکم ہوں، اور وسائل کی تقسیم منصفانہ، شفاف اور پائیدار ہو۔
پاکستان کو اس وقت جس معاشی بیداری کی ضرورت ہے، وہ صرف بجٹ دستاویزات یا پالیسی بیانات سے نہیں آئے گی، بلکہ عام شہری، سیاسی قائدین، اور ادارہ جاتی قیادت سب کو اس اصول کو دل سے قبول کرنا ہوگا کہ ہر سہولت، ہر ریلیف، اور ہر فائدے کی ایک لاگت ہے — اور اس لاگت کو چھپانے یا نظر انداز کرنے سے نہ ترقی ممکن ہے اور نہ وقار۔