سوشل میڈیا: عکاسی یا تباہی؟

[post-views]
[post-views]

نوشین رشید

سوشل میڈیا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں آج کا انسان اپنی تصویر خود بنا رہا ہے۔ ابتدا میں یہ ذریعہ رابطے، علم کے تبادلے اور اظہارِ رائے کا ایک مہذب ذریعہ سمجھا گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ سہولت ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے جو ہماری انفرادی شناخت، اجتماعی رویوں اور معاشرتی اقدار کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔

ہماری نوجوان نسل اب کتابوں سے نہیں، بلکہ ٹرینڈنگ ویڈیوز سے متاثر ہو رہی ہے۔ سوچنے کا عمل مختصر اور دکھاوے کا جنون شدید ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کا رخ تعمیری کے بجائے تخریبی بن گیا ہے۔ دکھاوا، جھوٹ، مبالغہ، فحاشی اور اخلاقی زوال اس دنیا کے معمولات بن چکے ہیں، جہاں شہرت کا پیمانہ عقل یا کردار نہیں بلکہ وائرل مواد کی شدت ہے۔

انفلوئنسرز کی ایک ایسی نسل سامنے آ چکی ہے جس کے پاس نہ علم ہے نہ تہذیب، نہ فکری گہرائی ہے نہ سماجی شعور۔ ان کے نزدیک زندگی صرف ایک اسکرپٹڈ ڈراما ہے، جس میں صرف ادائیں، تاثرات اور ڈرامہ بازی اہم ہے۔ وہ ہر وہ حرکت کرنے کو تیار ہیں جو انہیں چند ہزار ویوز، کچھ برانڈز کی توجہ، اور وقتی شہرت دلا دے۔ چاہے وہ حرکت کتنی ہی سطحی، غیر مہذب یا خطرناک کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن ہم ایسے واقعات دیکھتے ہیں جن میں کسی ٹک ٹاکر کی ہلاکت، اسلحے کا غیر ذمہ دارانہ استعمال، یا تشدد پر مبنی ویڈیوز سرفہرست بن جاتی ہیں۔

یہ صرف انفرادی واقعات نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کی ایک خاموش چیخ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس نے نوجوانوں کو صرف شہرت کے جنون میں جکڑ دیا ہے۔ جہاں بچپن اسکرین پر پھیل گیا ہے، اور جوانی لائکس کے طوفان میں بہہ رہی ہے۔ جس سماج میں ماں باپ کی تربیت کو یوٹیوب نے بدل دیا ہو، جہاں اساتذہ کی باتیں بور اور ٹک ٹاک کی حرکتیں “انٹرٹین منٹ” کہلاتی ہوں، وہاں صرف معاشی نہیں، اخلاقی اور فکری انحطاط بھی لازمی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس زوال کے باوجود ہم خوابِ غفلت میں ہیں۔ ریاستی سطح پر نہ کوئی ضابطہ ہے، نہ رہنمائی۔ تعلیمی ادارے بھی صرف امتحانات اور گریڈز کی دوڑ میں مصروف ہیں، جبکہ عملی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج یعنی ڈیجیٹل تربیت کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ والدین بچوں کے سوشل میڈیا استعمال سے بے خبر ہیں، اور جو باخبر ہیں وہ اسے روکنے کی ہمت نہیں رکھتے، کہیں اولاد ناراض نہ ہو جائے۔

معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو چکا ہے۔ ہم نہ صرف اپنی روایات سے کٹ چکے ہیں بلکہ اب اخلاقیات، تہذیب، حیا، ادب، برداشت، سب کچھ مذاق بن چکا ہے۔ ہر دوسرا نوجوان “مواد بنانے والا” ہے، مگر کسی کے پاس مقصد نہیں۔ کسی کو یہ شعور نہیں کہ وہ کیا دکھا رہا ہے اور کیا سکھا رہا ہے۔ فکر، گہرائی، اور حقیقت پسندی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ہم نے ایک ایسی نسل کو پیدا کیا ہے جو وائرل تو ہو سکتی ہے، مگر باوقار نہیں؛ مشہور ہو سکتی ہے، مگر باکردار نہیں۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم سنجیدگی سے خود کا جائزہ لیں۔ اگر سوشل میڈیا کو واقعی ترقی، شعور اور بہتری کا ذریعہ بنانا ہے تو ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہمیں اپنی اقدار کی طرف واپس جانا ہو گا، اپنی نسل کو یہ سکھانا ہو گا کہ شہرت اصل کامیابی نہیں، بلکہ سچائی، علم، اور کردار ہی انسان کی اصل پہچان ہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ تیز رفتار، پرکشش اور سطحی دنیا ہمیں اس اندھیرے میں دھکیل دے گی، جہاں سے واپسی صرف ایک حسرت بن کر رہ جائے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos