‏جمہوری تحریکیں اور عوامی لاتعلقی

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان میں جب بھی جمہوری تحریکوں کی بات کی جائے، تو یہ عمومی تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ان تحریکوں کی قیادت ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے کی ہے، نہ کہ عام شہریوں نے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ چاہے تحریکِ بحالی جمہوریت ہو، جنرل مشرف کے دور کے خلاف احتجاج ہوں، یا حالیہ ادوار میں انتخابی شفافیت کی جدوجہد — ان سب میں عوام کی شمولیت رسمی اور سیاسی کارکنان کی شمولیت فیصلہ کن رہی ہے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر عوام اجتماعی طور پر سیاسی یا جمہوری تحریکوں میں کیوں شریک نہیں ہوتے؟ اس کی وجوہات صرف وقتی سیاسی حالات یا قیادت کی ناکامی تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک گہرے ثقافتی، تاریخی اور نفسیاتی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

پاکستانی معاشرہ کئی دہائیوں بلکہ صدیوں سے سماجی نابرابری، جاگیردارانہ وراثت، اور ادارہ جاتی کنٹرول کا شکار رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کا عمومی رویہ “قبول کر لینے” اور “خاموش رہنے” کا رہا ہے۔ یہاں مزاحمت صرف اس وقت سامنے آتی ہے جب مذہب سے متعلق کوئی حساس مسئلہ ہو — تب ہی عوام خود سے باہر نکلتے ہیں، سڑکوں پر آتے ہیں اور منظم مظاہرے کرتے ہیں۔ مگر جب بات سیاسی حقوق، سماجی انصاف، یا آئینی بالادستی کی ہو، تو ایک عجیب سا جمود طاری ہو جاتا ہے۔

اس رویے کی جڑیں معاشرتی تربیت، تعلیم کی کمی، اور ریاستی بیانیے میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ایک ایسا شہری جسے بچپن سے یہ سکھایا جائے کہ “سیاست گندی چیز ہے”، “حکومت سے دور رہو”، “جو ہے جیسے ہے، قبول کرو”، وہ کیسے جمہوریت کے لیے آواز بلند کرے گا؟ ریاست نے اپنے بیانیے سے نہ صرف عوام کو سیاست سے دور کیا، بلکہ ان کے حقِ مزاحمت کو بھی دبا دیا۔

لہٰذا، جب بھی کوئی جمہوری تحریک ابھرتی ہے، وہ عوامی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی تحریک ہوتی ہے، جو کارکنان تک محدود رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کارکنان کو ریاستی جبر یا مفاداتی مجبوریاں آ گھیرتی ہیں، تحریک کمزور پڑ جاتی ہے — کیونکہ اس کے پیچھے عوامی طاقت کی بنیاد ہی نہیں ہوتی۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس خاموش بحران کو سمجھیں۔ اگر واقعی جمہوری تحریکوں کو کامیاب دیکھنا ہے، تو ہمیں صرف جلسے، دھرنے یا نعروں سے آگے بڑھنا ہو گا۔ ہمیں عوامی سیاسی شعور بیدار کرنا ہو گا، اور اس کے لیے بنیادی سطح پر سماجی تربیت، تعلیم اور بیانیے کی تبدیلی ضروری ہے۔

جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام نہیں، بلکہ ووٹ پر پہرہ دینے، حق مانگنے اور ناحق پر احتجاج کرنے کا عمل بھی ہے۔ جب تک پاکستانی عوام سیاسی ناانصافی، انتخابی دھاندلی، یا آئینی خلاف ورزیوں پر ویسا ہی ردِعمل نہیں دیں گے جیسا وہ مذہبی مسائل پر دیتے ہیں، تب تک جمہوریت کا خواب ادھورا رہے گا۔

اس لیے سوال یہ نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کیوں کمزور ہے، بلکہ یہ ہے کہ کیا عوام اسے مضبوط کرنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟
اگر چاہتے ہیں، تو پھر صرف سیاسی جماعتوں پر انحصار چھوڑ کر، خود میدان میں آنا ہوگا۔ ورنہ جمہوریت صرف کتابوں اور تقریروں تک محدود رہے گی — حقیقت میں نہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos