جمہوریت کے دعوے دار 2024 میں خاموش کیوں؟ اصول یا مفاد؟

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

سن دو ہزار اٹھارہ میں پاکستان کے ذرائع ابلاغ، عدلیہ اور انتظامی ڈھانچے سے وابستہ کئی سرکردہ شخصیات جمہوریت، آئینی بالادستی اور سول سپرمیسی کے علمبردار کے طور پر سامنے آئیں۔ انہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کی، عوامی مینڈیٹ کے احترام کو لازم قرار دیا، اور ادارہ جاتی نظم و نسق کی حد بندیوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ تاہم سن دو ہزار چوبیس تک آتے آتے انہی حلقوں میں سے متعدد افراد یا تو مکمل خاموشی اختیار کر چکے ہیں یا ایک ایسے بیانیے کا حصہ بن چکے ہیں جو اُن کے پہلے مؤقف کی سراسر نفی کرتا ہے۔ اس پسپائی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ آخر یہ تبدیلی کس بنیاد پر واقع ہوئی؟ کیا یہ اصولوں سے انحراف ہے یا صرف ذاتی مفادات سے ہم آہنگی کا نتیجہ؟

ممکنہ طور پر اس رویے کی بنیاد اس امر میں ہے کہ جن افراد کو ماضی میں جمہوریت پسند تصور کیا گیا، وہ درحقیقت جمہوری نظریات کے حقیقی پیروکار نہیں تھے۔ اُن کا جمہوریت سے تعلق نظریاتی یا اصولی نہیں بلکہ محض سیاسی، مالیاتی یا انتظامی مفادات سے مشروط تھا۔ جب تک جمہوریت ان کے ذاتی اہداف سے مطابقت رکھتی رہی، وہ اس کی حمایت کرتے رہے، لیکن جیسے ہی حالات بدلنے لگے اور جمہوری بیانیہ ان کے لیے خطرہ بننے لگا، وہ فوراً اس سے کنارہ کش ہو گئے اور نئے طاقتور مراکز سے ہم آہنگ ہو گئے۔

یہ تبدیلی کسی فرد واحد کی کمزوری نہیں بلکہ ایک گہرے ادارہ جاتی و سیاسی بحران کی عکاس ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو ایک مستقل اصول کے بجائے ایک وقتی سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ جب تک جمہوری اقدار کو غیر مشروط طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا اور اُن پر ہر قسم کے حالات میں عملدرآمد یقینی نہیں بنایا جائے گا، تب تک جمہوری استحکام ایک نعرے سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ جو شخصیات اصولوں کو مفادات کی بھینٹ چڑھاتی ہیں، وہ جمہوریت کی نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کی پاسداری کرتی ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos