حسینیت بمقابلہ خود پرستی

[post-views]
[post-views]


تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


ضلع جھنگ کےسیفی بھٹی اور ضلع قصور کی طیبہ شیخ ہم جماعت رہے ہیں۔ کبھی کبھی ہم خیال بھی ہو جاتے ہیں۔ اکثر اوقات ان میں اختلاف رہتا ہے ۔ ان کا اختلاف بھی شائستگی کی حدود میں رہتا ہے اور ان کا اتفاق بھی علمی اور ادبی ہوتا ہے ۔شخصی معاملات کو علمی معاملات سے الگ رکھتے ہیں۔ دو رکنی گروپ میں سیفی صاحب خود کو عیادت اور محترمہ کو قیادت کا اہل سمجھتے ہیں۔ محترمہ بھی ان کے خیال سے مکمل اتفاق کرتی ہیں۔ دونوں ادب کے طالب علم ہیں۔ تاریخ کا بھی مطالعہ کرتے رہتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی معاملات اور تاریخی حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا کی تاریخ اور مذہب کو سمجھے بغیر انسان اپنے رب تعالی کی دی ہوئی صلاحیتوں کا حق صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتا۔ اپنے تازہ ترین مقالے “عیادت کے اہل کو مل گئی قیادت، منہ چھپا کر گم ہوگئی سیادت ” میں دو رکنی ٹیم نے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ عالم میں کن اشخاص کو قیادت کے سنگھاسن پر بٹھانا چاہیئے تھا،کون لوگ فقط عیادت کے مستحق تھے، تاریخی طور پر قیادت، عیادت، سیادت، عبادت اور سعادت میں کیا تعلق ہے ؟


اگر نااہل افراد کو قیادت کے منصب پر فائز نہ ہونے دیاجاتا تو انسانیت کی تاریخ کتنی مختلف ہوتی ۔ کون سے افراد ذہنی مریض تھے جن کا علاج ضروری تھا. جنہیں قیادت کا شوق تھا مگر عبادت کانہیں۔ جو خود پرست تھے ، انسانیت پرست نہیں۔ آئندہ آنے والے کالمز میں تفصیلی مقالے پر تفصیلی طور پر روشنی ڈالی جائے گی۔ سیاسی، مذہبی، ادبی ،سائنسی ،سماجی، نفسیاتی اور انسانی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے گی۔ آج مقالے کے چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں ۔ کالم نگار کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔ اختلاف رکھنا اور اختلاف کرنا بھی ضروری نہیں۔کالم نگار اپنی رائے محفوظ رکھتا ہے۔
بھٹی صاحب اور شیخ صاحبہ کی ریسرچ انہی کے الفاظ میں :- ” شاعر مشرق نے بجا فرمایا تھا کہ دل کے لیے مشینوں کی حکومت موت ہے اور احساس مروت کو آلات کچل دیتے ہیں” تمام مشینیں دھاتوں سے نہیں بنی ہوتیں۔ چند مشینیں گوشت پوشت کی بھی ہوتی ہیں۔ گوشت پوشت کا بنا ہوا انسان اگر مشین بن جائے تو قیادت کا نہیں عیادت کا حقدار ہوتا ہے۔ہر وہ انسان مشین ہے جو فقط اپنی ذات کے لیئے زندہ رہتا ہے اور اسے اپنی ذات سے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ ہر وہ مشین انتہائی خطرناک مشین ہے جو اپنے مفاد کے لیئے کچھ بھی کرگذرتی ہے ۔ ہر حد پار کرجاتی ہے۔ وہ خود کو ایسی گائے سمجھتی ہے جس نے اپنے دونوں سینگوں پر دنیا اٹھا رکھی ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں ایسے انسانوں کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا گیا جو خود غرض ہوتے ہیں ، ظالم ہوتے ہیں۔ اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کلام پاک میں حق کا انکار کرنے والوں ،حق کو چھپانے والوں ،جھوٹوں ،مرتدین ، منافقین ، مسلمانوں کے قاتل، عہد شکنی کرنے والے ، پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں ، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں اور ظالموں پر لعنت کی گئی ہے ۔ لعنت کا اصل مطلب اللہ تعالی کی رحمت سے محرومی ہے ، پھٹکار ہے ۔

ایسے افعال سے بچنا جواللہ تعالی کی لعنت کا موجب بنتے ہیں ۔ اللہ تعالی کی قابیل پر لعنت ہے کیونکہ وہ ظالم بھی تھا اور قاتل بھی۔ اس بادشاہ پر بھی اللہ تعالی کی پھٹکار جس نے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈلوایا تھا۔جدید دور کا انسان جانتا ہے کہ نمرود، شداد ،ہامان اور فرعون قیادت کے نہیں ، عیادت کے مستحق تھے۔ ذہنی مریض تھے، نفسیاتی کیس تھے ۔ فرقان کے الفاظ میں ایسے افراد انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے جو اللہ تعالی کو چھور کر اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں یہی لوگ ہیں جو جانوروں سے بھی بدتر ہیں ۔ ان کے آنکھ، کان ،عقل اور قلب پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ خود پسندی اور خود پرستی میں اندھے ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ اسلامی طرز فکر کے چند ماہرین کا خیال ہے کہ اللہ تعالی بعض افراد کو دنیا میں فقط اس لیئے سزا نہیں دیتےتا کہ انہیں آخرت میں قرار واقعی عذاب دیا جائے ۔ ان افراد کی لسٹ میں ہر طرح اور ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ مذہبی رہنما بھی، سیاسی رہنما بھی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لوگوں سے بنی نوع انسان کو ہمیشہ تکلیف پہنچتی رہی ہے ۔ ان بد بختوں نے عالم انسانیت کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ کئی زخم آج بھی تازہ ہیں۔ دنیا آج تک فرعون کو بھول نہیں پائی، چانکیہ کو نہیں بھول پائی، میکاولی کو نہیں بھول پائی اور ان حکمرانوں کو بھی نہیں بھول پائی جنہوں نے اپنی انا کے لیئے انسانوں کوبے دریغ تہہ تیغ کیا ۔ اللہ تعالی نے ہردور میں پیغمبر بھیجے جو نفسانی خواہشوں کی پیروی سے منع کرتے تھے ۔ انسان کی روحانی و جسمانی تطہیر کے لیئے معبوث کیے گئے تھے۔ شیطان کو اللہ تعالی نے مہلت دی ہے ۔شیطان ازل سے انسان کا دشمن ہے ۔ نفس شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔متقی ہستیوں کے سامنے شیطان کا ہر وار بے کار ہے۔ متقی لوگ مگر ہردور میں تھوڑے رہے ہیں۔اللہ تعالی نے ابتدا ہی سے انسان کے لیئے دین اسلام کو پسند کرلیا تھا۔ اسلام انسان کے لیئے اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔حضرت محمد پر اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید اتاری جو فرقان بھی ہے اور میزان بھی ۔ اللہ تعالی نے حضرت محمد پر اپنا دین مکمل کردیا۔ اپنی نعمت کی تکمیل کردی۔ حضرت محمد کا سب سے بڑا معجزہ قرآن اور آپ کا اسوہ حسنہ ہے ۔

اہل بیت قرآن فہمی اور اطاعت رسول میں ہمیشہ ممتاز رہے ہیں ۔ حضرت محمد اور ان کے اہل بیت پر درود و سلام بھیجنا نمازکا لازمی جزو ہے۔ اللہ کے نبی اپنے اہل بیت کے حقوق اور رتبے کا خیال رکھنے کی وصیت فرماگئے ۔تاریخ کے چند ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام کی تاریخ اور مسلمانوں کی تاریخ میں فرق ممکن ہے ۔ ضروری نہیں کہ اسلام کا دعوے دار ہر حکمران اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتا ہو ۔ اسلام قرآن اور حدیث کی پیروی کرنے کا نام ہے جب کہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے افراد بھی حکمران رہے ہیں جو اسلامی اصولوں کے مطابق کسی طرح بھی حکمرانی کے اہل نہیں تھے مگر نیرنگی سیاست دوراں کی بدولت وہ حکمران بن بیٹھے ۔ ان کا دامن ہر طرح کی دنیاوی آلائش سے آلودہ تھا۔ و ہ شراب بھی پیتے تھے ، زنا بھی کرتے تھے ، اللہ تعالی کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لیئے ہر وہ حرکت کرتے تھے جو اللہ اور اللہ کے رسول کی ناراضی کا باعث بنتی ہے ۔انہوں نے نواسہ رسول کو شہید کیا ۔ خانہ کعبہ پر سنگ باری کی ۔ مدینہ منورہ پر فوج کشی کی ۔ وہ قیادت کے نہیں ، عیادت کے اہل تھے ۔ مگر ان کا نفسانی مرض لا علا ج تھا۔ نفسانی امراض ہی روحانی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ گہرائی میں دیکھا جائے تو انہی بیمار حکمرانوں کی بدولت کرہ ارض پر اللہ کے دشمنوں کو خو ش ہونے کا موقع ملا۔شیطان آج بھی ان کے اعمال لوگوں کو مزین کرکے دکھاتا ہے ۔ مگر آخرت میں شیطان اور شیطانی اعمال کرنے والوں کا کوئی حصہ نہیں۔ عزت صرف متقیوں کے لیئے ہے۔ متقی اللہ کا سچا پیروکار ہوتا ہے ۔ تھامس کارلائل نے کہا:-” واقعہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسین اور ان کے رفقاکار اللہ کے سچے پیروکار تھے ۔ “قرآن پاک میں فرمادیا گیا ہے کہ عزت صرف اللہ کے سچے پیروکاروں کے لیئے ہے۔آیئے! اللہ عزوجل کے سچے پیروکاروں کے پیروکار بنیں ۔ حسینیت پر چلیں ۔اللہ تعالی ہم سب کو غم حسین کے سوا ہر غم سے محفوظ رکھے۔
کون کہتا ہے کہ پانی کو ترستے تھے حسین
ان کے ہونٹوں کو ترستا رہا پیاسا پانی
(جاری ہے )

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos