تحریر:۔ ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
کہا جاتاہے کہ روز قیامت اعمال کا دفتر کھلے گا لیکن ہمارے دفاتر میں ہر لحظہ ایسے اعمال ہو رہے ہوتے ہیں کہ لگتا ہے قیامت آ گئی ہے۔ہمارے دوست “شیری”کے بقول دفاتر میں وقوع پذیر ہونے والے کرتوت کی بدولت قیامت آتی نہیں ، ٹوٹ پڑتی ہے۔ “شیری” کا مزید کہنا ہے کہ دفاتر میں شاید عملہ کی کثیر تعداد صرف اس امر کو یقینی بنانے کیلیے تعینات کی جاتی ہے کہ کسی غریب آدمی کا کام جلدی نہ ہو جاۓ، پیسے دیے بغیر نہ ہو جاۓ۔ہمارا “شیری” کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ایک راۓ یہ بھی ہے کہ دفاترکا ماحول معاشرے کا ہی عکس ہوتا ہے۔دفاتر میں تعینات افراد ہمارے ہی بہن بھائی ہوتے ہیں،ہمارے ہی گھرانوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ویسے تو ہمارے ہاں نجی دفاتر اور ملٹی نیشنل کمپنیز سے واسطہ پڑنے والوں کی یادیں بھی کچھ زیادہ خوشگوار نہیں لیکن یہ قصہ پھر کسی دن سہی۔آج ہم” شیری”کے تجربات و خیالات سے اپنے قار ئین کو مستفید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ “شیری” کے بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے ، دفاتر کے چکر لگا لگا کر ہوئے ہیں۔ اب تو اس کا خون بھی سفید ہوگیا ہے ۔ “شیری”دفتروں کے دھکے کھانے کا اور درخواستیں دینے کا ورلڈٖ ریکارڈ ہولڈر ہے۔ وہ آۓ دن اپنا ہی ریکارڈ بہتر کرتا رہتا ہے۔ پہلے وہ دفاتر کے چکر اپنے ذاتی اور نوکری کے مسائل کی بدولت لگاتا تھا۔ اب مقصد ایک محکمے کے خلاف دوسرے محکمے کو درخواست دینا ہوتا ہے۔ “شیری” بھی کبھی زندہ دل انسان تھا، ہنستا تھا گاتا تھا۔ آب پیتا تھا، دال کھاتا تھا۔اللہ سائیں کے راگ گاتا تھا۔ ایک دن اپنے مکان کی فرد لینے پٹواری کے دفتر جانا پڑا ۔ وہ دن اور آج کا دن ، مہینے گزر گئے، سال گزر گئے ۔ “شیری”کے دفتروں کے چکر ختم ہی نہیں ہورہے۔ اسے جعلی فرد تھمادی گئی اور بعد میں اس پر جعل سازی کا مقدمہ بھی کروادیا گیا۔ تب “شیری”ایک سادہ دل پرائمری سکول ٹیچر تھا۔ قیامت پر قیامت یہ ہوئی کہ جب کوالیفیکیشن الاؤنس لگوانے کے لیے رشوت دینے سے انکار کیا تو اپنا محکمہ بھی دشمن ہو گیا۔سرکاری اور ذاتی مشکلات میں کچھ ایساباہمی ربط ہو اکہ “شیری” بائیس سال سے چھیالیس سال کا ہوچکا ہے۔مختلف محکموں سے لڑائی جاری ہے۔ وہ بھی جھوٹی سچی درخواستیں دینے کا ماہر ہو گیا ہے۔آدمی ذہین ہے،کبھی کبھی کام کی بات بھی کر جاتا ہے۔”شیری” کے بقول تمام دفاتر میں بھانت بھانت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ لیکن کسی بھی شخص کی کوئی” کل” سیدھی نہیں اور نہ ہی کوئی پل سیدھا کام کرنے میں صرف ہوتاہے۔ دفاتر میں بھی مختلف طرح کے سلسلہ ہاۓ جات پاۓ جاتے ہیں۔اگرچہ سلسلہ ہائے دفتریہ کی تعداد گننا فرد کا نہیں، ایک ادارے کا کام نہیں، بلکہ اس کار خیر کے لیے کئی ادارے درکار ہیں ۔ ہر دفتر میں ، ہر جگہ چار سلسلہ کے وابستگان ضرور پاۓ جاتے ہیں۔ “شیری” کی تحقیق صرف سرکاری دفاتر تک محدود ہے جبکہ میرے دوست “کاچھے “کے بقول نجی دفاتر بھی ان ہنر مند افراد سے خالی نہیں ہوتے۔مفاد عامہ کے لیے سلسلہ ہاۓ دفتریہ کا مختصر ترین تعارف پیش خدمت ہے:۔
سلسلہ دلیلیہ: سلسلہ دلیلیہ کو کئی مقامات پر سلسلہ عقیلیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس سلسلہ کے وابستگان کی تعداد عموما باقی تمام سلاسل کے مجموعی وابستگان سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ہر دفتر میں اس سلسلہ کا ایک سر غنہ ہوتا ہے جس کے پاس ہر کام کی کوئی نہ کوئی دلیل ضرور ہوتی ہے۔اس سلسلہ کا موٹو “جتنا” گڑ” لاؤ گے، اتنا میٹھا ملے گا” ہوتا ہے۔ من حرامی ہو تو حجتیں ہزار ہوتی ہیں ، تگڑی آسامی ہو تو دلیلیں ہزار ہوتی ہیں۔یہ قانون کی ذاتی تشریح کرنے میں “ید طولی” رکھتے ہیں۔اس سلسلہ کے “چیلے” کبھی کبھار افسر کے لیے بھی “چانٹا” ثابت ہوتے ہیں۔کیرئیر میں ایسے کانٹے ڈالتے ہیں کہ عمر دلیلیں دیتے ہی گزر جاتی ہے۔کہا جاتا ہے، راقم الحروف تصدیق یا تکذیب کی پوزیشن میں نہیں ،کہ سلسلہ دلیلیہ کے بانی کا “آئی کیو” آئن سٹائن سے بھی زیادہ تھا۔
سلسلہ چیلیہ: سلسلہ چیلیہ کے متعلقین عموما غریب سائلین پر چیل کی طرح جھپٹتے ہیں۔” جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا، ان کے لیے لہو گرم رکھنے کا نہیں، مٹھی گرم رکھنے کا بہانہ ہوتا ہے۔ان کے لبوں پہ ہر وقت انتہائی خوفناک فسانہ ہوتا ہے۔غریب اور ضرورت مند افراد کو کاری ضرب لگاتے ہیں۔اثرورسوخ والے سائلین سے عموما دور دوررہتے ہیں۔
سلسلہ نوکیلیہ: سلسلہ نوکیلیہ کے وابستگان کسی مقامی با اثر شخصیت یا کسی انتہائی با رسوخ شخصیت کے پروردہ ہوتے ہیں یا ہونے کا تاثردیتے ہیں۔ ان کی زبان نوکیلی اور زہریلی ہوتی ہے۔یہ سائلین کے ساتھ ساتھ جونئیر افسران کے لیے بھی اچھے جذبات نہیں رکھتے۔افسر اور سائل کے خاندانی پس منظر کے بارے میں تحقیق کروانا اور پھر اس کے مطابق ڈھل جانا ان کا طرہ امتیاز ہے۔
سلسلہ جمیلیہ: سلسلہ جمیلیہ سے وابسطہ افراد کچھ عرصہ سے بہت متحرک نظر آرہے ہیں۔یہ خود بھی خوبصورت نظر آنے کی پوری کوشش کرتے ہیں، خوبصورت افراد سے اپنا تعلق انتہائی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ خوبصورت افراد کے ذریعے عوام کے مسائل حل اور افسران کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں –”ہنی ٹریپ” ان کے طریقہ واردات کی ہی ایک شکل ہے۔
؎کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناؤں
جملہ ہاۓ سلاسل کے وابستگان ایک دوسرے کا انتہائی احترام کرتے ہیں۔سائل کو “مایا” کے جھنجھٹ سے نجات دلانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا چار سلاسل تو سمندر میں ایک قطرے کے مصداق ہیں۔ہر دفتر کا اپنا ایک مقامی سلسلہ بھی ہوتا ہے جہاں ایک “گُرو” کئی چیلوں کے ساتھ براجمان ہوتا ہے۔”گُرو جی” دفتر میں “گھنٹہ گھر” کے منصب اعلی پر فائز ہوتے ہیں۔عوامی فلاح کا ہر راستہ انہی کی طرف جا نکلتا ہے۔بر صغیر میں اسلام صوفیا کے اعلی کردار کی بدولت پھیلا۔صوفی شعرا من کی صفائی کے لیےکلام لکھتے رہے،گاتے رہے۔تصوف نفس کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہے۔کامیاب وہی ہے جو اپنے نفس کو مومن بنانے میں کامیاب ہو گیا۔اللہ تعالی ہمیں لوگوں کے لیے باعث برکت بناۓ۔جانے کیوں! اک شعر یاد آۓ جا رہا ہے
؎یہ جسم و جان تری ہی عطا سہی لیکن
ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا