ادارتی تجزیہ
پاکستان میں کرپشن پر بات کرنے والے اکثر بڑے دھوکہ دہی، رشوت کے سودے اور کمیشن کی کہانیاں سناتے ہیں۔ مگر اصل خطرہ وہاں ہے جہاں بدعنوانی کو بدعنوانی کہا ہی نہیں جاتا۔ پنجاب کے طاقتور محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کی مراعاتی دنیا اس خاموش بدعنوانی کی سب سے واضح مثال ہے — وہ بدعنوانی جسے بیوروکریسی کا ہر طبقہ “اپنا حق” سمجھ کر جیتا ہے۔
یہ محکمہ رہائش، گاڑیاں، ایندھن، پلاٹ، قرضے اور ویلفیئر اسکیم کی بندر بانٹ کا مرکز ہے۔ سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ میں اصول اور ضابطے کاغذی رہنما خطوط سے آگے نہیں بڑھتے۔ تعلقات، سفارش اور اثر و رسوخ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ گھروں کی مرمت اوردیکھ بھال پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں، اکثر ضرورت سے کہیں زیادہ، اور اس پر کوئی سوال اٹھانے والا نہیں۔
https://www.youtube.com/@TheRepublicPolicy
گاڑیوں اور ایندھن کے معاملے میں بھی یہی روش ہے۔ سرکاری گاڑیاں ذاتی سفر کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور پیٹرول کے اخراجات کا حساب کتاب تقریباً ناممکن ہے۔ کوئی موثر مانیٹرنگ میکانزم نہیں جو یہ طے کرے کہ عوام کا پیسہ کہاں جل رہا ہے۔
پلاٹ الاٹمنٹ اور ویلفیئر اسکیم بظاہر فلاحی منصوبے ہیں، مگر حقیقت میں یہ چند مراعات یافتہ افسران کے لیے انعامی اسکیمیں بن چکی ہیں۔ قرضوں اور مالی سہولتوں کا اجرا بھی مخصوص حلقے کے لیے آسان جبکہ باقی ملازمین کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔
https://facebook.com/republicpolicy
اصل سوال یہاں پیدا ہوتا ہے: جب یہ سب کچھ ایماندار سمجھے جانے والے افسران بھی “حق” سمجھ کر کرتے ہیں، تو پھر وہ کس بدعنوانی کو غلط سمجھتے ہیں؟ یہ رویہ بتاتا ہے کہ بیوروکریسی میں کرپشن کی تعریف اتنی محدود کر دی گئی ہے کہ مراعات کا غیر شفاف استعمال بھی قابلِ قبول ہے۔ اور جب نظام کے اندر قابلِ قبول کرپشن کا یہ پیمانہ موجود ہو، تو ناقابلِ قبول کرپشن کی انتہا کا تصور بھی لرزہ خیز ہو جاتا ہے۔
https://instagram.com/republicpolicy
یہ مسئلہ صرف ایس اینڈ جی اے ڈی تک محدود نہیں، بلکہ ہمارے پورے گورننس ماڈل کی عکاسی کرتا ہے۔ جب “قانونی” اور “غیر قانونی” کرپشن کی لکیر ہی مٹ جائے، تو عوامی وسائل ہمیشہ طاقتور طبقے کی جیب میں بہتے ہیں، اور ریاستی مشینری عوامی خدمت کے بجائے ذاتی آسائش کا آلہ بن جاتی ہے۔
https://www.tiktok.com/@republic_policy
سچ یہ ہے کہ اگر یہ حالات ہیں اور یہ سب کچھ کرپشن نہیں تو پھر اصل کرپشن کے حجم کا تصور صرف خوفناک نہیں — بلکہ مہلک ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں ریاست کا اعتماد ٹوٹتا ہے اور عوام یقین کھو دیتے ہیں کہ نظام کبھی ان کے لیے کام کرے گا۔