آپ میں اور ہم میں فقط دو الفاظ کا فرق ہے

[post-views]
[post-views]


تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


وہ اس کی زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا ۔والدین ا سے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ پورے خاندان نے محنت کی تھی ۔بچہ بھی ہونہار نکلا ۔اس نے بھی محنت کرنے کی حد کر دی۔تمام خاندان نے اپنے اپنے حصے کا کام بخیر و خوبی سرانجام د یا۔تقدیر بھی مہربان تھی۔ہمارے دوست کا ملک کے نامور ترین میڈیکل کالج میں داخلہ ہو گیا۔ خاندان کیلیے انتہائی مسرت کا لمحہ تھا ۔ پہلا لیکچر انتہائی اہم تھا ۔لیکچر دینے والے ڈاکٹر صاحب اپنے شعبے میں انتہائی ماہر تھے۔سونے پر سہاگہ اصلی اور نسلی برٹش تھے۔گورے تھے اور دل کے بھی گورے تھے۔ انہوں نے طلبا کو مبارک باد دی ۔ زندگی بھر کام آنے والی نصیحتیں کی ۔ ان کا بولاہوا ایک ایک لفظ آب زر سے لکھے جانے کے قابل تھا۔ ان کا لیکچر ہمارے دوست کے حافظے پر نقش ہے۔ چند جملے روزانہ بار بار یاد آتے ہیں:”امریکہ رہنے کا اتفاق ہوا، برطانوی تو میں ہوں ، یورپ کے دیگر ممالک میں بھی آتا جاتا رہتا ہوں، آپ کے ہاں بھی اکثر آنا ہوتا ہے۔ دیگر ایشیائی ممالک میں چکر لگتا رہتا ہے۔مغرب میں کوئی بھی شخص تھینک یو اور سوری کہنے میں تردد نہیں کرتا ۔ ایشیا میں بالعموم اور برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص لوگ ان دو الفاظ کے استعمال میں کنجوسی برتتے ہیں ۔ میری آپ سے گزارش ہے ، آپ ایسا نہ کیجیے گا۔ میرا خیال ہے کہ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ دنیا میں فقط دو الفاظ کا فرق ہے” ۔ ہمارے ڈاکٹر کو سینئر ڈاکٹر صاحب کا مشورہ ہمیشہ یاد رہا۔ اس نے اسے حکم سمجھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کی سمجھ آتی گئی اور اپنے دین کو سمجھنے کی کوشش بھی دن بدن زور پکڑتی ہے۔ محترمہ طیبہ سیف کا ایک مقالہ نظر سے گزرا ۔ اک فقرہ ہمیشہ سوچنے پر اکساتا رہا۔ وہ جملہ آپ بھی پڑھیے:-“علمائے اسلام کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ ہر نبی اور رسول کی بعثت کا دو بنیادی مقصد ہوتے ہیں، پہلا توحید کا پیغام پہنچانا ، ہر طرح کے شرک کا قلع قمع کرنا اور دوسرا مکارم اخلاق کی تلقین ۔اخلاقی اصول جو ازل سے سچے ہیں ، پہلا انسان بھی جانتا تھا کہ جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں اور کائنات کے خاتمے سے قبل آخری آنسان کو بھی اس بابت کوئی الجھن نہیں ہو گی کہ اخلاقی لحاظ سے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔کچھ احکامات انسان کی پروگرامنگ میں شامل ہیں ۔ ہر انسانی روح اپنی دلی رضامندی سے عہد الست کے بندھن میں بندھی ہے۔توحید انسان کے خمیر میں ہے ، صحیح اور غلط کی پہچان بھی انسان کے خمیر میں ہے۔اللہ تعالی نے انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا۔ضمیر کی دولت دی۔ بجا ہے کہ نفس امارہ شیطان سے مل کر ہمیں صراط مستقیم سے ہٹانے کیلیے طرح طرح کے جتن کرتا ہے اور اکثر اوقات کامیاب بھی ہو جاتا ہے لیکن گناہ کرنے والا شخص ، غلط کام کرنے والا فرد جانتا ہے کہ وہ جو کر رہا ہے، غلط ہے ، فقط اپنے جسمانی تقا ضوں کے تحت کر رہا ہے۔ جب نفسانی خواہشات کا سیلاب گزر جاتا ہے تو انسان کو پچھتاوا ضرور ہوتا ہے۔ خوش قسمت پچھتاوے کے بعد توبہ کرلیتے ہیں۔چند ایسے بھی ہیں جو اپنا آپ شیطان کو فروخت کر دیتے ہیں جن کے آنکھ ، کان اور دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ یہی لوگ اصلی مشرک ہیں ۔ خواہش نفس کو معبود بنا کر تمام عمر یہ اپنی سفلی خواہشات کی تکمیل کیلیے ہر حربہ روا رکھتے ہیں ، نیک لوگ مگر ان سے مزاج جدا رکھتے ہیں”۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز اسلام کا قلعہ ہے، دھرتی ماں کو ہم سے مگر یہ گلہ ہے، ہم نے نہ پاکستانی ہونے کا حق ادا کیا اور نہ ہی شاید مسلم ہونے کا ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا:-
اسی قُرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
’تن بہ تقدیر‘ ہے آج اُن کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
تھا جو ’ناخُوب، بتدریج وہی ’خُوب‘ ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اس میں کوئی اچنبھے والی بات نہیں کہ ہم نے انگریزوں کا دور غلامی گزارا ۔ غلامی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ غلاموں کو آقا کی ہر ادا میں حکمت نظر آنے لگتی ہے۔الحمد اللہ ہمارے بزرگوں نے بہت جلد اس حقیقت کا ادراک حاصل کر لیا کہ مسلمان ہندوؤں سے الگ ایک قوم ہیں ۔ہماری بقا الگ وطن کے بغیر ممکن نہیں ۔ ہمیں آزاد ہوئے سالوں گزر گئے ہیں ،اب ہمیں دور غلامی کے اثرات سے مکمل طور پر چھٹکارا پا لینا چاہیے۔بد قسمتی سے ابھی بھی ہماری معاشرتی زندگی میں کئی خلا ہیں ۔یہ خلا فقط دین اسلام ہی پُر کر سکتا ہے۔ ہماری اول اور آخر شناخت رسول آخرالزماں کا امتی ہونا ہے۔کالم نگار پورے اعتماد سے یہ کہ سکتا ہے کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ نے اخلاق کی بہترین تربیت کی ۔ انہوں نے نہ صرف اپنے صحابہ کرام کے اخلاق سنوارے بلکہ اللہ کے نبی کی سیرت اورا حادیث میں رہتی دنیا تک کامل نمونہ اور جامع احکامات موجود ہیں ۔ہمارے دین کا حکم ہے کہ اچھی بات صدقہ ہے، مسکراہٹ صدقہ ہے،اچھا مسلمان وہی ہے جو انسانیت کیلیے سب سے بہتر ہے ۔ کتب احادیث میں مرقوم ہے کہ پیغمبر آخرالزماں ﷺ ہر شخص کو خندہ پیشانی سے ملتے تھے۔ اپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ آپ رحمت ہی رحمت تھے۔ انسان جو بھی اچھی خصلت اور عادت سوچ سکتا ہے، اپنی بہترین اور جامع شکل میں، وہ خصلت اور عادت پیغمبر اسلام میں موجود تھی۔حدیث کا مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ بہترین اخلاق کی تکمیل کیلیے آئے تھےاور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے تربیت یافتہ لوگ آج بھی ہم سب کیلیے مشعل راہ ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند میں مسلمانوں نے اک طویل عرصہ حکومت کی ۔مسلم دور حکومت میں سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی۔غالب اور اقبال نے فارسی میں بھی شاعری کی ہے۔ فارسی زبان سے بنیادی واقفیت کے بغیر آج بھی اساتذہ کی اردو شاعری کو سمجھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ فارسی زبان میں سماجی اخلاقیات کی بہترین روایات موجود ہیں ۔ اسلام شائستگی کا دین ہے۔ نجانے کیسے ہمارے ہاں انتہا پسندی رواج پانے لگی ۔ہم خیر مانگنے اور خیر بانٹنے والے لوگ تھے۔ ہمارے ہاں تو ہر کسی کی رسم و رواج کا صدق دل سے احترام کیا جاتا تھا ۔ بلا شبہ حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے اور جہاں سے ملے ،لے لینی چاہیے ۔اگر ہم انگریزی معاشرے کی اچھی روایات کو اپنا لیں تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ۔ ہمیں اپنے دین کا عملی پہلو بھی مد نظر رکھنا چاہیے ۔عبادا ت اور اخلاقیات دونوں آخرت کے پر چے کے لازمی سوال ہیں ۔دونوں میں پاس ہونا ضروری ہے ۔ ہمار ارویہ اور مزاج بھی اسلامی ہونا چاہیے۔اقبال نے بجا کہا تھا:
یہ حکمتِ ملکوتی، یہ علمِ لاہُوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی، یہ مراقبے، یہ سُرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
شریکِ شورشِ پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
فروغِ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos