سالا ، مچھر، آدمی اور ہیجڑہ

[post-views]
[post-views]

تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ بندہ ناچیز کا ریلوے سٹیشن جانا ہوا –ٹرین لیٹ تھی- احقر ایک بینچ پر بیٹھ گیا-ریل کی پٹڑی” ڈنگی” تو تھی، “چبی” نہیں تھی- موسم بھی ڈینگی کا تھا-ایک مچھر نے جب تیسری بار کان کے پاس سیٹی بجائی تو چند لمحوں تک سمجھ ہی نہ آئی کہ سیٹی ٹرین کی ہے یا کسی شاطر برین کی –نظر بے اختیار ارد گرد اٹھ گئی-لوگ آنے والوں کے انتظار میں دونوں ہاتھ ملائے جا رہے تھے، تالی بجائے جا رہے تھے۔ مچھر مسکرائے جا رہے تھے، بھن بھنا ئے جا رہے تھے- بے اختیار تالی بجاتے بجاتے میرے ہاتھ ہوا میں اٹک گئے ۔ مجھے فکر خاں اٹک یاد آئے اور یاد آتے چلے گئے-دل و دماغ اٹک گئے- فکر خاں اٹک کے آباؤ اجداد میں سے کوئی اٹک نہیں گیا تھا کیونکہ ان کے بزرگوں کا خیال تھا کہ دریا کا پُل پار کرتے ہی پردیس شروع ہوجاتا ہے-پہلے ہی دریا کا پُل ان کے گھر سے پورے تیس کلومیٹر کے طویل فاصلے پر تھا- فکر خاں اٹک اس بابت اپنے بزرگوں کے ہم خیال تھے-وہ میرے ہم ضلع، ہم تحصیل ،ہم محلہ اور ہم گلی تھے- اپنی طرز کے ولی تھے- لیکن میرے ہم نوالہ و ہم پیالہ بالکل نہیں تھے-اگرچہ یاروں کے یار تھے، متاثر سوچ و بچار تھے-نئی باتیں سوچنے کے لیے تیار تھے لیکن جب سوچ کہیں اٹک جاتی تھی تو پھر زمیں جنبش ،آسماں جنبش ،تمام جہاں جنبش لیکن اٹک خاں جہاں اٹکن ، بھلے سارا جہاں لٹکن، اٹک خاں اٹکے ہی رہتے تھے-حضرت داغ کو بڑا غرور تھا ” حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے ،بیٹھ گئے”اگر داغ صاحب بھی فکر خاں اٹک کو ملتے تو ان کے غرور کو داغ لگ جاتا اور وہ خاں صاحب کو گُرو مان لیتے-گُرو تو خاں صاحب کو بہت سے لوگ ماننے لگ گئے تھے جب انہوں نے مچھر ،آدمی ،سالا اور ہیجڑا کی بابت اپنی تحقیق” حلقہ ارباب دانش مقامی و بین الاقوامی “میں پیش کی- جب آتش جواں تھا تو شب وصل کے چکر میں رہتا تھا لیکن جب فکر خاں جواں تھے تو سالا ، آدمی ، مچھر اور ہیجڑے کے باہمی تعلقات کے دقیق نکات آشکار کرنے کےچکر میں رہتے تھے ۔تب ہندوستان میں مودی کی حکومت نہیں تھی اور اہلیان بھارت بھی اتنے “موڈی “نہیں تھے- تجارتی اور سفارتی تعلقات بھی قائم تھے ، ادبی اور ثقافتی رشتے بھی- رانجھے ،سانجھے تھے، سرحد کے اس پار سے بھی ہیر لے آتے تھے، چین کی بانسری بجاتے تھے،اک دوجے کی فلموں کے ڈائیلاگ دہراتے تھے-فکر خاں اٹک تو ایک ہی ڈفلی بجاتے تھے-” سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے”- فکر خاں کباب کھاتے تھے ، لکھتے ہوئے کبھی اعراب نہ لگاتے تھے اور بولتے ہوۓ اسرار رموز و اوقاف کا ایسا استعمال فرماتے تھے کہ سننے والے تڑپ تڑپ جاتے تھے- کبھی یوں بھی ارشاد فرماتے تھے- “سالا ،ایک مچھر، آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے”- انتہائی معصومانہ انداز میں پوچھتے تھے”سالا آدمی کو ہیجڑا بناتا ہے یا ایک مچھر-” مجھے کون بتائے ،مجھے کون سمجھائے؟ شاعر نے مچھر کو سالا یا سالے کو مچھر کہنا کیوں مناسب سمجھا؟ اس بابت تو شاعر ہی بتا سکتا ہے- شاعر کے تعلقات اپنے سالا صاحبان سے زیادہ کشیدہ تھے یا اپنے علاقے کے مچھروں سے؟ میرے خیال میں یہ شاعر کا ذاتی معاملہ ہے ۔ کسی کے ذاتی معاملات کو اخبار کے صفحات کی زینت بنانا شرفا کا شیوہ نہیں اور فکر
خا ں اٹک سے زیادہ شریف کون ہو سکتا ہے ؟ فکر خاں اٹک کا دور “ای میل” کا نہیں تھا ، “فی میل” کا بھی نہیں تھا،۔ مردوں کا راج تھا، خط لکھنے کا رواج تھا۔ فکر خاں کو عین جوانی میں محکمہ اوقاف میں ملازمت مل گئی تھی – محکمہ اوقاف کے ایک ساتھی اہلکار کو مرشد کا درجہ دیتے تھے- محکمہ اوقاف بھی انہیں رموزواوقاف تو کیا اسرار ورموز بھی نہ سکھا سکا تھا-مُرشد کے تبادلے کے بعد خط لکھنا، مگر آ گیا تھا- مرشد کو خط لکھا،خط میں سوالات اٹھائے، سوالات کو نمبر بھی لگائے – فکر و دانش کی آبیاری کیلیے فکر خاں اٹک کا خط پیش خدمت ہے”(1 ) سالا ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا کیوں بنا دیتا ہے؟(2)سالا ، یک سالا ،دو سالا ،سہ سالا، چہار سالا اور پنج سالہ وغیرہ وغیرہ میں مماثلت کیا ہے ،فرق کیا ہے ؟ (3) اگر ایک مچھر آدمی کو ہیجڑہ بنا سکتا ہے تو دو مچھر آدمی کو کیا کیا بنا سکتے ہیں؟ (4)اگر ایک مچھر آدمی کو ہیجڑہ بنا سکتا ہے تو کتنے مچھر ہیجڑے کو آدمی بنا سکتے ہیں؟ (5)مچھر کے علاوہ آدمی کے ہیجڑہ بننے کی وجوہات کیا کیا ہیں؟
( 6)مچھر ہونا بہتر ہے یا آدمی ، سالا ہونا بہتر ہے یا ہیجڑہ؟ (7)مچھر ،آدمی ، سالے اور ہیجڑے کا رشتہ کتنا پرانا ، کتنا پائیدار ہے؟ (8)آدمی کو مچھر نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے یا سالے نے؟( 9)اگر مچھر آدمی کو ہیجڑہ بنا سکتا ہے تو آدمی مچھر کو کیا کیا بنا سکتا ہے؟ (10)کیا آدمی ہیجڑہ بننے کے لیئے مچھر کا محتاج ہے؟ اگر نہیں تو مچھر کو بدنام کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟
مچھر آدمی کو ہیجڑہ بنانے کے علاوہ ملیریا اور ڈینگی بھی پھیلا سکتا ہے۔ نمرود کو سبق بھی سکھا سکتا ہے۔ شہر کے شہر صفحہ ہستی سے مٹاسکتا ہے ۔ مرشد خط ملتے ہی مرید کے اٹھائے سوالات میں بھٹک گئے۔ اہل علاقہ کی نظر میں کھٹک گئے تو عزم سفر باندھا ۔ فکر خاں کے گائوں تشریف لائے۔ دونوں نے مل کر بڑے بڑے معمے سلجھائے ۔ لیکن سالا، مچھر ، آدمی اور ہیجڑہ کے تعلقات کی باریکیاں سمجھ نہ پائے۔ ایک دوجے سے شرمائے۔ آخر کار مرشد کو کہنا پڑا ” دیکھو فکر خان ! نہ ہم سالے ہیں نہ مچھر اور نہ ہیجڑے ۔ آدمی بھی ہیں یا نہیں ، کون جانے۔ بلھے شاہ جیسی مہان ہستی کو اپنا پتہ نہیں تھا ہم تو عامی ہیں ۔ ہیجڑا آدمی سے بہتر ہوسکتاہے اور مچھر بھی۔ دنیا نری آزمائش ہے، مفت کی زیبائش ہے۔ خواجہ سرا بھی آزمائے جارہے ہیں ، آدمی بھی اور سالے بھی، بہنوئی بھی ، شوہر بھی ، زوجہ بھی حتی کہ مچھر بھی ۔ مچھر کامران ہوا اور نمرود برباد۔ کامیاب وہی ہے جو دنیا کی حقیقت پا گیا ، اپنا آپ بچا گیا، جنت میں گھر بنا گیا، خالق کائنات کو بھا گیا ،بھلے وہ کوئی بھی ہو۔ ” فکر خاں اٹک عرصہ دراز سے فکر آخرت میں اٹکے ہیں، کبھی راستے سے نہیں ہٹے ، شیطان کو کھٹکے ہیں لیکن مسرور ہیں، زندگی سے بھرپور ہیں۔ آئیے! خالق کائنا ت سے خاتمہ بالایمان اور رب کائنات کی پہچان کی دعا مانگیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos