دستخط آپ کر دیجیے

[post-views]
[post-views]


تحریر:۔ ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی


“محترم”بنیادی طور پر ایک شریف انسان تھے۔ ابتدائی درجے کے گزیٹیڈ افسر تھے۔ غلط کام نہ کرتے تھے۔ ٹھیک کام سے بھی پرہیز کرتے تھے، رشوت نہ لیتے تھے کسی کا کام کر کے نہ دیتے تھے۔ اوائل ملازمت سے ہی اُن کو استاد نے دستخط کرنے سے پرہیز بتایا تھا ۔ دستخط کرنے کا سوچتے تک نہ تھے، جب بھی کسی کاغذ پر دستخط کرنے کا مرحلہ آتا کسی افسر سے یا ماتحت سے دستخط کروانے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیتے تھے۔ ان کے ایمان کا بنیادی جز، اپنے علاوہ محکمہ کے جملہ ملازمین کو دستخط کرنے کے قابل سمجھنا تھا افسر سے دستخط کرواتے ہوئے یقین دلا دیتے تھے کہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ جونیئر کے دستخط سے بات نہیں بنے گی۔ اپنے ماتحت سے دستخط کرواتے ہوئے ماتحت کی قابلیت کے قصیدے پڑھتے رہتے تھے۔ اسی طرح معاملات چلتے رہے ، دہائی گزرگئی۔ اگلے سکیل میں ترقی پاگئے عادت پختہ ہوتی رہی۔ اکیلے رہتے تھے، تنخواہ کافی تھی۔ ٹھاٹھ ہاتھ تھے مگر وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، زندگی بے رنگ تھی۔ چند ہمدرد افراد کو ان پر رحم آیا۔ انہوں نے ان کی بے رنگ زندگی میں رنگینی لانے کا فیصلہ کیا۔ انتہائی معقول جگہ رشتہ طے ہو گیا۔ خاتون خوش مزاج، خوش شکل اور خوش اخلاق تھیں۔ نکاح کا روزِ سعید آن پہنچا۔ تقریب جاری تھی۔ نکاح خواں اُن کے عہدے سے مرعوب تھا۔ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا ” حضور ذرا دستخط تو کر دیجیے”۔ عادت فطرت بن چکی تھی۔ دوست کو کہنے لگے “دستخط “آپ کر دیجیے۔ دوست بھی ان کی طرح از لی کنوارے تھے۔ انہوں نےایک نظر دلہن کو دیکھا۔ انتہائی برق رفتاری سے دستخط کر دیئے۔ سرکاری ملازم تھے۔ محکمہ مال میں ابتدائی درجے سے ترقی پائی تھی دستخط کرنے اور کروانے کا ہنر جانتے تھے۔ تیزی سے فارم پُرکیا۔ دلہن کے پاس پہنچے۔ نہایت سلیقے سے دستخط کرنے کی استدعا کی ،دلہن نے بھی تامل نہ کیا جھٹ پٹ دستخط کر دیئے ، نیا جوڑا رخصت ہوا۔ ہمارے محترم دوست تمام عمر یہی پلاننگ کرتے رہے تھے کہ کسی طرح دستخط کرنے سے بچ جائیں۔ یہ پلاننگ ہمیشہ ان کے کام آتی رہی۔ افسوس اس دن ان کی پلاننگ کسی اور کی ڈویلپمنٹ کا باعث بن گئی ، ہمارے محترم کا پختہ ایمان تھا کہ “دستخط “کرنا تو باعث نقصان ہو سکتا ہے،” دستخط “نہ کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ کئی سال گزرنے کے بعد بھی اُن کو سمجھ نہ آئی کہ اگر وہ “دستخط” کرنے سے بچ گئے ہیں تو دلہن بھی اُن سے بچ گئی ہیں۔ افسرِ مال بھی آئندہ تجرد کی زندگی گزارنے سے بچ گئے ہیں۔ دستخط نہ کرنے سے ہرسو بچت ہی بچت تھی، پھر بھی محترم کا دل ڈوبا جارہا تھا۔ اُن کے بہترین دوست شبِ عروسی کی تیاری کر رہے تھے مگر ان کی نہیں اپنی ! اپنی شب عروسی کی تیاری ۔” محترم“ کو حالات کا ادراک ہوا تو انہیں یاد آیا کہ جس دوست سے انہوں نے دستخط کرنے کی استدعا کی تھی، اُن کا تعلق محکمہ مال سے تھا۔ افسر مال کے پاس مال کی تو کبھی کمی نہیں رہی تھی مگر اہل و عیال کی کمی تھی۔اُس دن ایک دستخط نے یہ کمی بھی دور کر دی۔ افسر مال نے پیار سے اپنی بیوی کا نام ”دستخط “ رکھ دیا تھا۔ اکثر لاڈ بھرے لہجے میں کہتے تمام عمر شب و روز دستخط کیے ، ایک دو تین چار نہیں، بے شمار کیے د”ستخط” پیسے لیے، بھول گئے ۔ کبھی سوچا تک نہ تھا کہ ایک دن ایسے” دستخط “کرنے پڑیں گے ساری عمر پیسے بھرنے پڑیں گے۔ اس خر چے پر میں قربان ، “دستخط” میری جان بیگم شرماتی تھی مسکراتی تھی ، ان کا دل لبھاتی تھی ۔ اتفاقیہ نکاح نے ان کی طبیعت پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب کیے تھے۔ مدعو کرنے پر تو پہلے بھی ہر شادی میں جاتے تھے لیکن حسین اتفاق کی برکت سے اُن کی طبیعت میں اتنی سرشاری آگئی تھی کہ کہیں بھی پتہ چلتا، کسی کا نکاح ہے، بن بلائے پہنچ جاتے تھے۔ دلہن اور دُ لہا پر تو پہلے بھی اُن کی نظر ہوتی تھی مگر اس حسین اتفاق کے بعد مولوی پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ افسر مال کے بدل گئے تھے ماہ وسال ،نکھر گئی تھی ان کی چال ڈھال، ہو گئے وہ صاحب اہل وعیال۔ افسر مال نے پہلے بیٹے کی پیدائش پر “محترم “” م کو مٹھائی بھجوائی ۔ کوریئر بوائے نے رسید دے کر کہا ”سر یہاں دستخط کر دیجیے”۔ سوچتے رہے، خلا میں تکتے رہے کچھ دیر بعد کورئیر بوائے سے کہنے لگے کہ دستخط آپ خود ہی کر دیجیے ۔ مٹھائی کا ڈبہ لے کر اندر چلے گئے ۔ اگلے بچے کی پیدائش پر بھی ایسا ہی ہوا۔ تیسرے بچے کی مبارکباد کی مٹھائی کے موقع پر صورتحال تھوڑی سی ناخوشگوار ہوگئی۔ نیا کورئیر بوائے ذرا تیکھے مزاج کا تھا۔ دستخط نہ کرنے والی بات سن کر کہنے لگا کہ آپ اچھا کرتے ہیں کہ ان پڑھ ہو کر بھی اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ یہاں انگوٹھا ہی لگا دیجیے۔ ان کے دل میں شدید تمنا بیدار ہوئی ، وہ انگوٹھا نہیں ، ہاتھ کا پورا نشان ثبت کر دیں لیکن کاغذ پر نہیں، اس روسیاہ کے منہ پر۔ ہمیشہ کی طرح ضبط کیا اور مٹھائی کا ڈبہ پکڑ کر اندر تشریف لے گئے ۔ پاس کھڑے ہمسائے نے دستخط کر دیے۔ کورئیر بوائے ہکا بکا رہ گیا۔پرانی عادات، سفلی جذبات اور نادر خیالات بھی پورے ”ڈان” ہوتے ہیں، ان سے نجات پانا مشکل ہی نہیں، نا ممکن بھی ہو سکتا ہے۔ “محترم” آج بھی دستخط کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ ابھی تک دستخط نہ کرنے کی اپنی عادت پر قائم ہیں، فقط اتنا فرق پڑا ہے جب ان کے سامنے کوئی کاغذ دستخط کرنے کیلئے لایا جاتا ہے تو کچھ دیر خلا میں تکتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے ان کی روح عالم بالا پرواز کر گئی ہے۔ کچھ دیر بعد عالم اسباب میں واپس آجاتے ہیں، کسی اور سے دستخط کروانے کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیتے ہیں۔ ایک تبدیلی ان میں اور بھی آئی ہے۔ محکمہ مال کے ملازمین سے دوستی نہیں کرتے لوگ ان کی غیر موجودگی میں دستخط، دستخط کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ دستخط ان کی چھیڑ بن گیا ہے۔ اداس اداس ، کھوئے کھوئے رہتے ہیں۔ دھیما سا نغمہ زیر لب گاتے رہتے ہیں۔ہم تنہائی میں اکثریوں خود کو سزا دیتے ہیں دستخط لکھتے ہیں اور لکھ کر مٹا دیتے ہیں ۔ہمارے محترم آج بھی تنہا ہیں۔ افسر مال کے دستخط کے لیئے سرا پا دُعا ہیں۔

2 thoughts on “دستخط آپ کر دیجیے”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos