تحریر :ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی
سیلاب اور نواب صاحب کے خاندان کا رشتہ پرانا تھا۔ پہلا سیلاب جس میں نواب صاحب کے خاندان نے بے پناہ ثواب کمایا تھا، وہ 1947 والا سیلاب تھا ۔وہ سیلاب بھی عجب تھا ۔ پانی کی کمی لاحق ہو ئی اور کئی بار ہوئی اگرچہ نواب صاحب کا گاؤں چناب کے دروازے پر تھا ، نواب صاحب کا رقبہ موجودہ دور کی تحصیل اٹھارہ ہزاری ضلع جھنگ میں تھا ۔ جی ہاں وہی جھنگ جہاں کا ڈی سی ہونا بہت بڑا اعزاز تھا ۔ پنجاب کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے ۔پاکستان نواب صاحب کا خواب تھا مگر نواب صاحب کا خواب ایسے پاکستا ن کا نہیں تھا جو قائد اعظم کے الفاظ میں کٹا پھٹا تھا لیکن پاکستان سے محبت ان کی عبادت تھی ۔اب ایسے اسباب پیدا ہو گئے تھے کہ لٹے پٹے لوگ چتھڑ وں میں ملبوس گھر سے بے گھر ہو گئے تھے ۔ لوگوں کا ایک سیلاب تھا ، بے حساب تھا ، ان کا خیال رکھنا نواب صاحب کے لیے کار ثواب تھا ۔ لوگ آتے گئے ، نواب صاحب انہیں گلے لگاتے گئے ، اپنے رقبے پر بٹھاتے گئے ، غربت مکاتے گئے ۔ نواب صاحب انتہائی مذہبی آدمی تھے ۔ اسلامی تاریخ کے طالب علم تھے ۔ مواخات مدینہ سے واقف تھے ۔ صاحب دل تھے ۔ آنے والے بھی غیرت مند تھے ۔اپنے اپنے علاقے میں صاحب جائیداد تھے ، صاحب حیثیت تھے ، شریف لوگ تھے جنہیں ریڈ کلف ، ماؤنٹ بیٹن ، جواہر لعل نہرو اور ان کے گماشتوں نے گھر سے بے گھر کر دیا تھا لیکن وہ قائم دائم تھے ، ان کا پندار سلامت تھا ۔ خو د داری بر قرار تھی ۔ انہوں نے محنت کی ، کاشتکاری کے جدید طریقے جانتے تھے ۔ نواب صاحب کا علاقہ ترقی کرتا گیا ۔ نواب صاحب بھی مطمئن ہوتے گئے ۔ وہ جانتے تھے کہ جہاں کوئی قدرتی آفت آئے ، وہاں کے رہنے والے اجر خدا وندی کے مستحق ٹھہرتے ہیں ۔ امتحان تو ان کا ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالی نے انکی مدد کے قابل کیا ہوتا ہے ۔ آزمائش تو ان کی ہوتی ہے ۔ وہ مشکل کی گھڑی میں اپنے بھائیوں کی مدد کرتے ہیں یا نہیں ۔ نواب صاحب نے کہیں پڑ ھ رکھا تھا کہ ایک بادشاہ کو حکومت دی گئی ۔ بادشاہ حکومت ملنے سے پہلے بہتر انسان تھا ۔ حکومت ملتے ہی اس کے رنگ ڈھنگ بدل گئے ۔ اس کے خواب میں ایک پکارنے والا پکارتا تھا :-” تمہیں تولا گیا اور کم پایا گیا “۔ حکومت بھی گئی ، سکھ چین بھی گیا ۔ نواب صاحب نے ایسے کتنے ہی لوگوں کے بارے میں پڑھا تھا جو آزمائش کی گھڑی میں شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے ۔ نواب صاحب دنیاوی اسباب کو اہمیت دیتے تھے لیکن انہوں نے قرآن شریف کے بنیادی الفاظ کے مطالب ذہن نشین کر رکھے تھے ۔وہ اصطلاحات قرآن کا مطلب سمجھنے کے لیے علمائے کرام سے رابطے میں رہتے تھے ۔ احادیث کا مطالعہ ان کا پسندیدہ شغف تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ اس امت کا فتنہ مال ہے۔ ان کے والد بزرگ وار کہا کرتےتھے کہ دنیا کی زندگی فقط کھیل تماشا ہے ، اصل دولت وہ ہے جو اللہ کی راہ میں صرف کر دی جائے ، یہی تجارت ہے ، یہی عقل مندی ہے ۔ان کی جاگیر کی قریب جہلم اور چناب ملتے تھے ۔ہندوستان سے مہاجر آئے تو مقامی دانش اور مہاجرین کے فہم کا ملاپ بہت اچھے نتائج لایا ۔ فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہجرت کر کے آئے ہوئے لوگ تعلیم کے بھی شوقین تھے ۔ انہوں نے بچوں کو بھی پڑھانا شروع کر دیا ۔ جب ارد گرد کے لوگ کہتے کہ نواب صاحب کو نیکی کا اجر زندگی میں ہی مل گیا ہے تو نواب صاحب کی خوشی دیدنی ہوتی ۔
انہوں نے اپنے جھنگ اور بزرگوں کی روایات کی لاج رکھی تھی ۔ اللہ تعالی نے ان کے مقام و مرتبہ میں نمایا ں اضافہ کر دیا ۔ عوامی سیلاب نواب صاحب اور عوام کی انتھک محنت کی بدولت نعمت میں بدل گیا ۔ شرح خواندگی بڑھ گئی تھی اور پسماندگی ختم ہو گئی تھی۔ چناب اور جہلم کے ملاپ سے تریموں کے مقام پر پانی نیلگوں ہو جاتا ہے اور اس کا حسن دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے ۔ نواب صاحب کے علاقے کی خوشحالی نے بھی لوگوں کو حیران کر دیا ۔ عوامی سیلاب نے لوگوں کے دلوں کو سیراب کر دیا ۔ جناب کے کنارے رہنے والے جنگوچی سیلاب سے کبھی نہیں گھبرائے۔ ان کی امداد باہمی کے جذبے نے کبھی بھی کسی آزمائش کو عذاب نہیں بننے دیا اور جھنگ والوں کا تو تانگے والا بھی خیر مانگتا ہے ، خیر بانٹتا ہے۔ حضرت سلطان باہو کی دھرتی کے باسی اپنی دریا دلی کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہمارا ملک بنیادی طور پر زرعی ملک ہے ،ہمیں زراعت سے محبت ہے، ہمیں زمین سے محبت ہے، ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے، ہمیں اک دوجے سے محبت ہے۔ ہم نے ہمیشہ محبت کے تقاضے نبھائے ہیں ،مٹی سے محبت کے بھی اور مٹی سے بننے والے اپنے ہم جنسوں سے محبت کے بھی ۔آج کل پھر وطن عزیز میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ سیلاب کی آفت کئی زندگیاں نگل گئی ہے ۔ پنجاب کے کسی شہر میں بارش کی زیادتی کے باعث اربن فلڈنگ ہو رہی ہے تو راوی ، ستلج اور چناب میں پانی معمول سے بہت زیادہ ہے ۔ پاکستان کے لوگ دریا دل ہیں ۔ ان کا ظرف سمندر جیسا ہے ۔آزمائشوں کے عادی لوگوں کا اللہ تعالی پر یقین غیر متزلزل ہے ۔ اسی بھروسے کے سہارے ہمارے برگوں نے حصول آزادی کی جنگ جیتی اور ہم نے ابھی تحفظ ازادی کی جنگ میں اپنے ازلی دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں ۔ دشمن پریشان ہے ، دنیا حیران ہے ، خوش ہر مسلمان ہے ، پاکستان ہماری جان ہے ، آن ہے ، شان ہے ، مان ہے ۔ دنیا پاکستان کی فوجی طاقت کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔ ہماری اصل طاقت تو ہمارے لوگوں کا ایک دوسرے کے لیے جان نچھاور کرنے کا جذبہ ہے۔ ہم اسلامی روایات کے امین ہیں، ہم اسلام کا قلعہ ہیں، ہمارے اسلاف نے ایثار کی ایسی روایت قائم کیں کہ جب میدان جنگ میں پیاسے کو پانی پلانے کی کوشش کی جاتی تھی تو وہ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے قریبی زخمی کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ پانی اسے پلایا جائے ۔ ہم ایثار پیشہ قوم ہیں، ہم ایک زندہ قوم ہیں، دشمنوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود ہم دنیا میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ کوئی سیلاب ہمارے جذبے سے بڑا نہیں۔ اپنے بزرگوں کی روایات کا بھرم رکھیے، اپنے لوگوں کی مدد کیجئے۔ جنت کے حصول کا موقع قدرت نے ہمیں فراہم کیا ہے۔ ہمارے بزرگ ایسے ہر موقع سے فائدے اٹھاتے تھے ۔ آئیے ! ہم بھی آخرت سنواریں ۔ ہمیں دنیا کی بہترین رہنمائی میسر ہیں ۔اپنی سیاسی قیادت کا ساتھ دیجئے ، اپنی فوج کا ساتھ دیجیے، اپنی سول انتظامیہ کا ساتھ دیجیے ،اتحاد اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیجیے، حکومتی ہدایات پر عمل کیجئے ،بچوں کو پانی کے قریب مت جانے دیجئے۔ ہم دریا سے ڈرنے والے نہیں ،ہم فقط اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ جب بھی سیلاب آتا ہے، ہمارے لوگوں کی سخاوت اور حوصلے کا سیلاب بھی آتا ہے۔ آئیے! ایک بار پھر اپنے قومی جذبے سے دنیا کو بتا دیجیے کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہم پائندہ قوم ہیں۔پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد ۔
