حافظ مدثر نوید
یہ مضمون بیرسٹر ضمیر گھمرو کے افکار سے ماخوذ ہے جو ری پبلک پالیسی تھنک ٹینک کے مشیر ہیں۔
ایک وفاق اس وقت تشکیل پاتا ہے جب صوبے یا ریاستیں مل کر ایسا نظام حکومت قائم کرتے ہیں جو باہمی تعاون اور مشترکہ ذمہ داریوں پر مبنی ہو۔ وفاقی ڈھانچے کا مقصد یہ ہے کہ چند بڑے اور اہم معاملات جیسے دفاع، خارجہ امور، تجارت، محصولات، مرکزی مالیاتی نظام، بحری امور اور بین الصوبائی شاہراہوں کو وفاق کے سپرد کیا جائے، جبکہ تعلیم، صحت، پولیس، زراعت، مقامی حکومت اور ترقیاتی امور جیسی بڑی ذمہ داریاں صوبوں کے پاس رہیں۔ پاکستان کا آئین اسی اصول کو بیان کرتا ہے مگر عملی طور پر وفاقی رویے اس کے برعکس ہیں۔
اس انتظام کا سب سے اہم حصہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ ہے۔ سن دو ہزار دس میں اٹھارہویں ترمیم سے پہلے ساتواں این ایف سی ایوارڈ دیا گیا جس میں صوبوں کا حصہ محصولات میں 57.5 فیصد اور وفاق کا حصہ 42.5 فیصد مقرر کیا گیا۔ یہ تناسب بھی وفاق کے حق میں تھا کیونکہ اس میں تقریباً پانچ ہزار ارب روپے کی غیر محاصل آمدنی کو شامل نہیں کیا گیا جو مکمل طور پر وفاق کے خزانے میں رہتی ہے۔ اگر محصولات اور غیر محاصل آمدنی دونوں کو شامل کیا جائے تو صوبوں کو صرف چھتیس فیصد حصہ ملتا ہے حالانکہ عوامی خدمات کی سب سے بڑی ذمہ داری انہی کے پاس ہے۔
وفاق کا بجٹ رویہ ہمیشہ سے غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔ مالی سال 2025-26 میں وفاقی اخراجات کل سترہ ہزار پانچ سو ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے آٹھ ہزار دو سو ارب روپے قرضوں کی ادائیگی پر اور ڈھائی ہزار ارب روپے دفاع پر خرچ ہوں گے۔ صرف سول اخراجات تقریباً سات ہزار ارب روپے ہیں جو آئینی دائرہ کار کے لحاظ سے ناقابل جواز ہیں۔ اگر وفاق اپنے اختیارات کے مطابق محدود اخراجات رکھے تو یہ ڈھائی ہزار ارب روپے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔ اس طرح چار ہزار ارب روپے سالانہ بچائے جا سکتے ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام سے دو گنا زیادہ ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ وفاق نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے صوبائی معاملات میں مداخلت بڑھا دی ہے۔ اضافی قرضے، دوہرے محکمے اور مراعات یافتہ بیوروکریسی کو تحفظ دینا معمول بن چکا ہے۔ اس مرکزیت کا نقصان سنگین ہے: بلوچستان میں بغاوت، خیبر پختونخوا میں بدامنی، سندھ میں ناراضگی اور پنجاب میں بھی تقسیم کے آثار۔ عوام کو یہ نظر آ رہا ہے کہ وسائل اسلام آباد میں مرتکز ہیں جبکہ صوبوں میں سکول، اسپتال اور بلدیاتی نظام زبوں حالی کا شکار ہیں۔
گیارہویں این ایف سی ایوارڈ کی موجودہ کارروائیاں اس بحران کو درست کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 160 ضمانت دیتا ہے کہ صوبوں کا حصہ پچھلے ایوارڈ سے کم نہیں ہو سکتا۔ مگر اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبوں کو محصولات اور غیر محاصل آمدنی دونوں میں ان کا منصفانہ حصہ ملے تاکہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کر سکیں۔ اگر وفاق اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرے اور صوبوں کو کم از کم نصف وسائل دے تو ملکی استحکام ممکن ہے۔
اگر اسلام آباد نے اپنے پھولے ہوئے ڈھانچے کو برقرار رکھا تو پاکستان کا مالی بحران مزید گہرا ہوگا۔ وفاقی غیر ترقیاتی اخراجات پہلے ہی چاروں صوبوں کے مجموعی بجٹ سے زیادہ ہیں، جس سے نچلی سطح پر ترقی رُک گئی ہے۔ یہ رویہ وفاقیت کے تصور کو مجروح کرتا ہے اور عوامی اعتماد کو کمزور بناتا ہے۔ ایک منصفانہ این ایف سی فارمولا، جو مساوات اور آئینی وضاحت پر مبنی ہو، پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
صوبوں نے 1947 میں پاکستان اس وعدے پر بنایا تھا کہ یہ ایک فلاحی وفاقی ریاست ہوگی۔ اس جذبے کی تکمیل کے لیے آج این ایف سی کو بیوروکریسی پر عوام کو فوقیت دینی ہوگی، ترقی کو دوہرے نظاموں سے الگ کرنا ہوگا اور مالی ذمہ داری کو اشرافیہ کے مفاد سے آزاد کرنا ہوگا۔ یہی واحد راستہ ہے جس سے پاکستان کا وفاق مستحکم ہو سکتا ہے اور قوم خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکتی ہے۔