مسعود خالد خان
پاکستان ایک بار پھر شدید سیلابی تباہ کاریوں کا شکار ہے جس نے ملک کی زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ربیع کی فصلیں خطرے میں ہیں جبکہ بیج اور چارے کی کمی آنے والے مہینوں میں بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تقریباً ۱۳ لاکھ ہیکٹر زمین زیر آب آئی، جن میں ۹.۳ لاکھ ہیکٹر قابلِ کاشت رقبہ شامل ہے۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں دھان، کپاس اور گنے کی بڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ صرف دھان کی فصل میں ایک لاکھ ۸۸ ہزار ہیکٹر متاثر ہوا جبکہ کپاس کے ۸۴ ہزار اور گنے کے ۲۳ ہزار ہیکٹر زیر آب آئے۔ خیبرپختونخوا میں بھی ۵۰ ہزار ہیکٹر زرعی زمین متاثر ہوئی۔ سندھ میں اگرچہ نقصان کم ہے، لیکن وہاں بھی ۴۳ ہزار ہیکٹر زمین متاثر ہوئی ہے۔
Follow Republic Policy on YouTube
ایف اے او نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں گندم کے بیج کا نصف حصہ کسانوں کے محفوظ کردہ اناج سے حاصل ہوتا ہے جو زیادہ تر گھروں میں سیلاب سے ضائع ہو گیا۔ باضابطہ مارکیٹ میں ۸۰ سے ۹۰ فیصد بیج دستیاب ہے مگر طلب میں اضافہ اور قیمتوں کا دباؤ اس رسد کو متاثر کر سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو کسان اگلی کاشت کے لیے معیاری بیج حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔
مویشی پالنے والے بھی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ چارے کی قلت اور اس کی بلند قیمتوں نے حالات مزید مشکل بنا دیے ہیں۔ صرف ۴۵ فیصد چارے کا بیج باضابطہ مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ کئی مالکان مجبوراََ اپنے مویشی بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سیلاب سے پیدا ہونے والے گندے پانی اور پناہ گاہوں کی بھیڑ نے بیماریوں کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں لمپی اسکن ڈیزیز کی وبا پہلے ہی پھیل چکی ہے اور اب اس کے پھیلاؤ کی اطلاع پاکپتن، لودھراں اور خانیوال تک ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منہ کھر اور دیگر بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ رہے ہیں۔
Follow Republic Policy on Facebook
انسانی بحران بھی تشویش ناک ہے۔ جلالپور پیروالہ میں متاثرہ خاندانوں کو اسکولوں سے بے دخل کر دیا گیا تاکہ تعلیمی سرگرمیاں بحال ہو سکیں۔ پنجاب پی ڈی ایم اے نے تمام سروے ٹیموں کو ہدایت دی ہے کہ نقصانات کے جائزے کے دوران عوامی شکایات کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ شفافیت اور انصاف یقینی بنایا جا سکے۔
Follow Republic Policy on TikTok
محکمہ موسمیات نے بھی پیشگوئی کی ہے کہ جنوبی سندھ میں دو اکتوبر تک مزید بارشیں ہو سکتی ہیں، جس سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان کے لیے یہ بار بار آنے والے موسمیاتی جھٹکے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ملک کو فوری طور پر موسمیاتی مزاحمتی نظام اور جدید زرعی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
Follow Republic Policy on Instagram
ایف اے او کی رپورٹ اس بات کی کڑی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کی غذائی سلامتی براہ راست موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر بیج کی فراہمی محفوظ نہ کی گئی، چارے کی قلت پوری نہ ہوئی اور کسانوں کو بروقت معاوضہ نہ ملا تو یہ بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیج کے ذخائر بنانا، چارے پر سبسڈی دینا اور بیماریوں کے خلاف ویکسینیشن پروگرام شروع کرنا فوری ضرورت ہے۔
Follow Republic Policy on WhatsApp
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے بار بار آنے والے سیلابوں سے دوچار ہے مگر تیاری ہمیشہ ناکافی رہی ہے۔ اگر اب بھی سبق نہ سیکھا گیا تو ہر نیا سیلاب برسوں کی محنت ضائع کر دے گا اور لاکھوں کسان غربت کے جال میں پھنسے رہیں گے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت زرعی ڈھانچے اور آفات سے نمٹنے کی پالیسی میں حقیقی اصلاحات کرے تاکہ مستقبل میں ایسی تباہی سے بچا جا سکے۔