پاکستان کی ’’سخت ریاست‘‘ کی الجھن: انتہاپسندی بمقابلہ آزادی

[post-views]
[post-views]

بیریسٹر نوید قاضی

حکومت کی جانب سے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائی نے ایک پرانی بحث کو دوبارہ جنم دیا ہے- کیا پاکستان کو انتہاپسندی پر قابو پانے کے لیے ایک “سخت ریاست” بننا چاہیے، یا اس عمل میں شہری آزادیوں کو خطرے میں ڈالنا پڑے گا؟ غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے نام پر اسلام آباد کی جانب تنظیم کے ناکام اور پُرتشدد مارچ کے بعد ریاست نے سخت مؤقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ویب سائٹ

تازہ کارروائی میں پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے تنظیم سے وابستہ تقریباً 3,800 مالی مددگاروں کی نشاندہی کر لی ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کراچی کے دورے کے دوران واضح کیا کہ “کسی بھی مسلح گروہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔” تاہم انہوں نے بریلوی علما سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی کہ یہ آپریشن کسی فرقے کے خلاف نہیں ہے۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے بھی ٹی وی پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے “سخت ریاست” کے طور پر عمل کرنا ہوگا۔

یوٹیوب

ٹی ایل پی کی دس سالہ تاریخ پرتشدد احتجاجوں، نفرت انگیز مہمات اور ریاستی اداروں سے جھڑپوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کی انتہاپسندانہ تقاریر نے اقلیتوں کو نشانہ بنایا، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا، اور بارہا ریاستی رٹ کو چیلنج کیا۔ بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ حکومت کو اتنی دیر کیوں لگی کہ وہ تنظیم کے حقیقی خطرے کو سمجھ سکے۔

ٹوئٹر

تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ کنٹرول قائم کرنے کے جوش میں ریاست کو اختلافِ رائے اور انتہاپسندی میں فرق برقرار رکھنا چاہیے۔ پاکستان کی تاریخ ایسے اقدامات سے بھری ہے جن میں انتہاپسندی کے خلاف کارروائیاں بتدریج صحافیوں، سیاسی مخالفین اور پُرامن احتجاج کرنے والوں کو دبانے کے لیے استعمال ہوئیں۔ قومی سلامتی کی مبہم تشریحات اکثر جبر کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

فیس بک

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ “سخت ریاست” کے نعرے کے تحت جمہوری آزادیوں میں مزید کمی کا خطرہ ہے۔ جب ریاست اپنے ناقدین کو دشمن قرار دیتی ہے تو وہ وہی غلطیاں دہراتی ہے جنہوں نے ماضی میں انتہاپسندی کو جنم دیا- محرومی، عدمِ شمولیت، اور سیاسی تنہائی۔ اصل استحکام زبردستی سے نہیں بلکہ انصاف اور شفافیت سے حاصل ہوتا ہے۔

ٹک ٹاک

ماہرین کے مطابق، پابندیوں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے بجائے دیرپا حل قانون کے دائرے میں ہے۔ ٹی ایل پی جیسی جماعتوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر، تشدد پر اکسانے اور عوامی املاک کے نقصان جیسے جرائم کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔ ایسے عدالتی اقدامات قانون کی بالادستی کو مضبوط کرتے ہیں، جبکہ پابندیاں تنظیموں کو زیرِ زمین لے جاتی ہیں جہاں وہ مزید خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

انسٹاگرام

پاکستان میں انتہاپسندی کی گہری وجوہات اب تک حل نہیں ہو سکیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے علاقوں میں غربت، ناانصافی اور عدمِ مساوات شدت پسند گروہوں کے لیے نئی بھرتیوں کا ذریعہ بنتی ہیں۔ جب تک ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا، سخت کارروائیاں صرف وقتی ریلیف فراہم کرتی ہیں۔ محروم اور انصاف سے مایوس لوگ اکثر انتہاپسندانہ نظریات کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

ویب سائٹ

یوں پاکستان کا اصل امتحان دو سطحوں پر ہے -ایک طرف تشدد پر مبنی گروہوں کا خاتمہ، اور دوسری طرف عوام کے اعتماد کی بحالی۔ ایک مضبوط ریاست کا مطلب جابر ریاست نہیں بلکہ منصف، جوابدہ اور شمولیتی ریاست ہے۔ ٹی ایل پی کے خلاف جاری کارروائی میں اصل آزمائش یہ ہے کہ پاکستان کتنی ذمہ داری سے اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرتا ہے، کیونکہ جمہوریت کی اصل طاقت قانون، انصاف اور برداشت میں پوشیدہ ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos