ڈاکٹر شبانہ صفدر خان
پاکستان میں خواتین گھریلو اور نگہداشت سے متعلق غیر معاوضہ کاموں کا سب سے بڑا بوجھ اٹھاتی ہیں — ایک ایسا بوجھ جو صدیوں سے نظرانداز اور کم تر سمجھا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی بین الاقوامی محنت تنظیم کی رپورٹ نے اس ساختی ناانصافی کو بے نقاب کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، گھریلو اور دیکھ بھال سے متعلق ذمہ داریوں میں مصروف 11 کروڑ 74 لاکھ پاکستانیوں میں سے تقریباً 6 کروڑ 70 لاکھ خواتین ہیں۔ وہ کھانا پکاتی ہیں، صفائی کرتی ہیں، مویشیوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، بچوں، بزرگوں اور بیماروں کی خدمت کرتی ہیں — بغیر کسی اجرت، آرام یا سماجی تسلیم کے۔ اس کے برعکس، مردوں کی ایک چھوٹی تعداد ایسے کاموں میں حصہ لیتی ہے، وہ بھی مختصر وقت کے لیے۔ یہ عدم توازن صرف صنفی تفاوت نہیں بلکہ ایک معاشی کمزوری ہے جو پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔
پاکستانی خواتین اوسطاً ہفتے میں پندرہ گھنٹے سے زیادہ گھریلو غیر معاوضہ کاموں میں صرف کرتی ہیں، جبکہ مرد سات گھنٹے سے بھی کم۔ محنت کی یہ غیر مساوی تقسیم خواتین میں “وقت کی غربت” پیدا کرتی ہے، جس کے باعث وہ تعلیم، ہنر، اور آمدن کے مواقع سے محروم رہتی ہیں۔ یہ نظام انہیں انحصار کے دائروں میں قید رکھتا ہے اور انہیں باقاعدہ روزگار میں داخل ہونے سے روکتا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق یہ ساختی امتیاز نہ صرف صنفی اجرت کے فرق کو بڑھاتا ہے بلکہ فیصلہ سازی اور قیادت کے شعبوں میں بھی خواتین کی شمولیت محدود کرتا ہے۔
آئی ایل او کی یہ رپورٹ پاکستان کے لیے بیداری کا پیغام ہونی چاہیے۔ خواتین کی غیر معاوضہ محنت دراصل معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے — وہ گھروں، اسپتالوں اور برادریوں کو سہارا دیتی ہیں، لیکن ان کی خدمات قومی اعداد و شمار میں شمار نہیں ہوتیں اور نہ ہی پالیسی سطح پر انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ معیشت انہی خواتین کی پوشیدہ محنت پر چلتی ہے جنہیں نہ کوئی تحفظ حاصل ہے، نہ قانونی حیثیت، اور نہ ہی سماجی پہچان۔ ان کے کام کو “فرض” سمجھا جاتا ہے، پیشہ نہیں، اور یہ سوچ بدلنا لازمی ہے اگر پاکستان حقیقی صنفی مساوات اور معاشی استحکام حاصل کرنا چاہتا ہے۔
حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ اصلاحات کے امکانات موجود ہیں۔ پاکستان آئی ایل او کے “گلوبل ایکسی لیریٹر برائے روزگار اور سماجی تحفظ” کا “پاتھ فائنڈر” ملک ہے، جس کے ذریعے بین الاقوامی ماہرین اور کامیاب ماڈلز سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں آئی ایل او کا “حقوق اور سماجی شمولیت کے فروغ” کا منصوبہ ایک اہم قدم ہے جس نے گھریلو ملازمین کو تنظیمی طور پر منظم کیا اور ان کی قانونی حیثیت کے لیے آواز بلند کی۔ گھریلو ملازمین کی انجمنوں کی رجسٹریشن اور آجران کے ضابطہ اخلاق کی تیاری ابتدائی مگر اہم اقدامات ہیں جو اس طبقے کی سماجی شناخت کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
تاہم، یہ کامیابیاں ابھی صوبائی سطح تک محدود ہیں۔ دیگر صوبوں میں لاکھوں خواتین اب بھی غیر رسمی طور پر کام کر رہی ہیں، جنہیں نہ کم از کم اجرت، نہ زچگی کی چھٹی، اور نہ ہی صحت کا بیمہ حاصل ہے۔ ایک منصفانہ اور جامع معیشت کے لیے پاکستان کو قومی سطح پر ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہیے جو “کئیر اکانومی” کو ایک باقاعدہ معاشی شعبہ تسلیم کرے۔ تربیت، سرٹیفکیشن، مناسب اجرتی ڈھانچے، اور سماجی تحفظ کے اقدامات سے نہ صرف محنت کش طبقہ بااختیار ہوگا بلکہ خاندانوں اور برادریوں کی فلاح بھی بہتر ہوگی۔
حکومت کا صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھا کر اگلے دس سال میں جی ڈی پی کا تین فیصد مختص کرنے کا وعدہ ایک مثبت قدم ہے، مگر وعدوں سے زیادہ ضروری عملدرآمد ہے۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ طویل المدتی بجٹ، نگرانی کے نظام، اور غیر معاوضہ کام کو قومی معاشی منصوبہ بندی میں شامل کرے۔ عوامی آگاہی مہمات بھی صنفی کرداروں اور گھریلو ذمہ داریوں کے بارے میں رویے بدلنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں تاکہ مرد اور خواتین دونوں یکساں طور پر دیکھ بھال کے کاموں میں شریک ہوں۔
خواتین کی غیر معاوضہ محنت کو تسلیم کرنا صرف سماجی انصاف کا تقاضا نہیں بلکہ معاشی منطق کا بھی ہے۔ دنیا بھر کی تحقیق بتاتی ہے کہ “کئیر اکانومی” میں سرمایہ کاری کسی بھی دوسرے شعبے کے مقابلے میں زیادہ روزگار پیدا کرتی ہے۔ پاکستان کے لیے، جہاں نوجوانوں میں بے روزگاری اور صنفی ناہمواری عام ہے، یہ تبدیلی جامع ترقی کے نئے دروازے کھول سکتی ہے۔ خواتین کے وقت اور محنت کی قدر — پالیسی، اجرت اور احترام کے ذریعے — وہ سرمایہ کاری ہے جو کسی بھی قوم کی حقیقی ترقی کی ضمانت بن سکتی ہے۔













