تحریر : آصف گوہر
ہم بچپن سے مطالعہ پاکستان میں یہ پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملک کی 75 فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے ۔ اگر اس دعوے کو سچ مان لیا جائے تو پھر ہر 3 ماہ بعد ملک میں چینی آٹے اور پیاز ٹماٹر کے بحران کا کیوں سامنا کرنا پڑتا ہے کہیں تو ابہام اور غلطی ہے جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
میری سمجھ میں جو بات آتی ہے کہ زمینداروں نے لالچ بری بلا کی کہانی کے برعکس روز ایک سونے کا انڈا لینے کی بجائے مرغی ہی کو ذبح کر دیا اوراپنے زرعی رقبے کو مرلے کے حساب سے ہاؤسنگ سوسائٹیز مافیا کو فروخت کر دیے ہیں، اگر لاہور شہر کی بات کی جائے تو ایک وقت تھا فیروز پور روڈ، چونگی امرسدھو، جی ٹی روڈ شالا مار باغ، شاہدرہ ، ملتان روڈ، ٹھوکر نیاز بیگ پھیکے وال موڑ اور غازی روڈ سے آگے کھیت کھلیان شروع ہوجاتے تھے جو لاہور کی سبزیوں کی ضرورت کے لیے کافی تھے ، آہستہ آہستہ پراپرٹی کے کام نے زور پکڑا اور ہاؤسنگ سیکٹر مافیا سرگرم ہوا اور لاہور کے مضافات میں واقع دیہاتوں کی زرعی زمین دیکھتے ہی دیکھتے ہڑپ کر گئے۔
ڈی ایچ اے لاہور کو ہی دیکھ لیں یہ گاؤں امرسدھو، کماہاں، جامن ،لیل گوونڈی مانوالہ اور ان گنت دیہاتوں کی زمین پر پاک بھارت بارڈر تک کی زرعی زمین نگل چکا ہے، اس کے علاوہ چھوٹے بڑی کئی ہاؤسنگ ڈیویلپرز نے لاہور کے زرعی رقبہ پر بےشمار ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا دی ہیں، یہی حال ملک کے دیگر اضلاع کا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
نقل مکانی اور دیگر وجوہات کی بنا پر اس جن کو بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اب انفرادی طور پر ہم اپنے روزمرہ کی ضرورت کچن گارڈن سے پوری کر سکتے ہیں، بنگالیوں نے اپنے گھروں میں خالی جگہوں پر عقب میں سبزیاں وغیرہ لگا رکھی ہوتی ہیں۔ راقم نے سعودی عرب قیام کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ وہاں پر بنگالی لیبرز نے اپنے کنٹینرز نما کمروں کے پیچھے لہسن، سبز مرچیں، پالک وغیرہ لگا رکھی تھی وہ بازار سے مچھلی لاتے اور اپنے کچن گارڈن سے ضرورت کی سبزی توڑ لیتے۔ہم بھی اپنے گھروں میں کچن گارڈن بنا سکتے ہیں ہماری تھوڑی سی توجہ سے ہم اپنے آپ کو مصروف بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنی ضرورت کی سبزی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لاہور میں ہمارے ایک دوست رانا نعیم نے اپنے گھر کی ناکار ہ چیزوں کو استعمال کرکے گھر کی چھت پر باقاعدہ کچن گارڈن بنا رکھا ہے اور اس میں ٹماٹر، بند گوبھی، بینگن، کدو، لہسن اور سبز مرچیں لگائی ہوئی ہیں جہاں سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق روز کچھ نہ کچھ توڑ کر نامیاتی سبزیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔