Premium Content

الف سے افسر ک سے کلرک

Print Friendly, PDF & Email

مصنف: عزیز اللہ خان

زمانہ طالب علمی میں کلرک مافیا یا افسران سے اتنا پالا نہیں پڑا تھا سب سے پہلے ان کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق پولیس میں بھرتی کے مراحل میں ہوا۔ ورنہ اس سے قبل کوئی بڑا افسر بھی سامنے آ جائے تو پرواہ نہیں ہوتی تھی پھر ہمیں ٹرینگ میں ڈر کر جینا سیکھایا گیا کہ یہ پی ایس پی افسران نوری مخلوق ہیں۔ جو آپ کا نفع اور نقصان کر سکتی ہے، آپ کی ملازمت انہیں کی مرہون منت ہے۔ جب چاہیں ایک جنبش قلم سے آپ کو گھر بھجوا سکتے ہیں۔ پھر اسی ڈر میں زندگی گزر گئی، اور ہمیں اس نوری مخلوق سے ڈرانے والے یہ کلرک مافیا ہی ہوتے تھے۔

ٹریننگ کے بعد ضلع میں ابتدائی کورسز میں بھی ہم ان کلرکوں کے رحم و کرم پر تھے ۔ سب سے پہلے مجھے ان کلرکوں کی طاقت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب باقی اضلاع   میں ہمارے ساتھ 1982 میں بھرتی ہونے والے بیچ میٹس سب انسپکٹر ہو گئے۔ مگر بہاولپور  رینج کے ہم سے ایک سال سینئر 1981 کے پروبیشنراے ایس آئی بھی ترقی یاب نہ ہوسکے۔ اس میں سب سے زیادہ کردار ہمارے ڈی آئی جی آفس کے سپرینٹنڈنٹ  باؤ تاج مرحوم کا تھا۔ جنہوں نے اپنا ذاتی پولیس رولز بنایا ہوا تھا کہ پانچ سال سے پہلے کوئی بھی اے ایس آئی پروبیشنر سب انسپکٹر ترقی نہیں پا سکتا، اور وہ اس بات پر ہمیشہ ڈی آئی جی صاحبان کو قائل کر لیتے تھے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/punjab-police-ma-taraqi-ka-nizam/

اگرچہ پولیس رولز کے باب 12 کے فقرہ 18 مطابق براہ راست بھرتی تین سال بعد اور پرموٹی دوسال بعد اپنے عہدہ پر کنفرم ہو گا اور اگلے عہدہ پر ترقی یاب ہوجائے گا۔ سیٹیں موجود ہیں مگر اصل پولیس رولز پر کبھی بھی عمل نہیں ہوتا بلکہ اس کلرک مافیا اور نوری مخلوق کے بنائے پولیس رولز پر عمل درآمد ہوتا ہے یہ جو مرضی چاہے کریں۔

نواز شریف صاحب کے دور حکومت میں پنجاب پولیس میں آوٹ آف ٹرن پروموشن کا رواج ڈالا گیا دیکھتے ہی دیکھتے پولیس ملازمین ترقی یاب ہونے لگے۔ کچھ نے تو اپنی جان خطرہ میں ڈالی دہشت گرد گرفتار کیے، مگر ان میں ان بُہت سے ملازمین ایسے بھی تھے جو افسران کی بیگمات کی خوشامد سے ترقی یاب بھی ہوئے۔ آئی جی کے دفتر والے کلرک مافیا کی موجیں لگی ہوئی تھیں کچھ ایڈیشنل آئی جی صاحبان نے تو کمال کردیا پیسے لے کر کنفرمیشن اور پروموشن بھی کرتے رہے۔

غرض ترقیوں کا طوفان تھا جو تھمنے کا نام نہیں  لے رہا تھا ترقی کا یہ سیلابی ریلا بہاولپور رینج تک پہنچنے سے پہلے دم توڑ جاتا تھا۔ اسی دوران 2004 میں اظہر حسن ندیم صاحب ایڈیشنل آئی جی پنجاب نے ایک مراسلہ جاری فرمایا جس میں یہ درج تھا کہ پنجاب کی تمام رینجز کے ڈی آئی جی صاحبان پولیس رولز کے باب 12 کے فقرہ 18 کے مطابق تمام ملازمین کی تاریخ بھرتی سے کنفرمیشن کر کے سنیارٹی دی جائے۔ اس میں اینٹی ڈیٹڈ سنیارٹی بھی شامل تھی اس مراسلہ کے مطابق پنجاب کی تمام رینجز نے اپنے ملازمین کو پچھلی تاریخوں سے کنفرم کرتے ہوئے ترقی یاب کر دیا۔ مگر بہاولپور ڈی آئی جی کے دفتر کے کلرکوں کو ہوش نہ آیا اور اس طرح ہم سب پورے پنجاب میں اپنی بیج میٹس سے چار پانچ سال جونیئر ہوگئے۔

ہمارے پورے بیچ نے آئی جی کو اپیلیں کیں لیکن کُچھ نہ ہوا ہر جگہ کلرک مافیا نے ہماری راہ میں روڑے اٹکائے اور افسران نے ہمیں سنیارٹی نہ دی۔میں نے عدالت کا سہارا لیا۔ پنجاب سروس ٹربیونل میں رٹ دائر کر دی آخرکار دوسال بعد سروس ٹربیونل نے مجھے میری سنیارٹی دے دی مگر کلرک مافیا نے افسران کو ڈرا دیا کہ اگر  اس کو سنیارٹی دی گئی تو پورا پنجاب ہل جائے گا ۔سروس ٹربیونل کے فیصلہ خلاف محکمہ پولیس نے سپریم کورٹ میں سی پی ایل اے دائر کرنے کی کوشش کی مگر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اور سولسٹر پنجاب نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب 2014 میں میرے بیچ میٹ ایس پی ترقی یاب ہونا شروع ہو گئے، تو میں نے لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بنچ میں سروس ٹربیونل کے فیصلہ کے عمل درآمد کی رٹ دائر کر دی۔ جس میں جسٹس صاحب نے محکمہ پولیس کو حکم دیا کہ کیونکہ سروس ٹربیونل کے فیصلہ کے خلاف محکمہ پولیس اپیل میں نہیں گیا اس لیے درخواست گزار کو سنیارٹی دی جائے مگر کمال بے شرمی سے محکمہ نے ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف سی پی ایل اے دائر کر دی، جو کہ خلاف قانون اور ضابطہ تھی۔ میں دوبارہ سروس ٹربیونل گیا، ہائیکورٹ گیا، مگر ہر جگہ محکمہ پولیس کا ایک جواب ہوتا تھا کہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل پینڈنگ ہے۔ حالانکہ خود سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ جب تک  سپریم کورٹ سٹے آرڈر  نہیں دیتی سابقہ فیصلہ پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ مگر محکمہ پولیس کا کلرک مافیا اور افسران ملازمین کے ساتھ عدالتی جنگ کو اپنی ذاتی جنگ سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/police-nizam-ma-tabdeli/

میں 2018 میں ریٹائر ہو گیا مجھ سے جونیئر ایس پی ہو گئے مگر میں محکمہ کی ہڈدھرمی کی وجہ سے ایس پی نہ ہو سکا اور ڈی ایس پی ریٹائر ہو گیا۔

مئی 2020 میں محکمہ پولیس کی طرف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی سی پی ایل اے کی تاریخ نکل آئی تو مجھے بہاولپور سے ڈی ایس پی لیگل توقیر کی کال آئی کہ پانچ تاریخ کو جسٹس منظور ملک صاحب کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ کورونا کی وجہ سے بہت کم وکلاء کو کورٹ روم میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ میں بھی اپنی ایڈوکیٹ والی یونیفارم میں اندر جا کر بیٹھ گیا۔ میں داد دیتا ہوں جسٹس منظور ملک صاحب اور جناب جسٹس منصور شاہ صاحب کی ذہانت کو اُنہوں نے محکمہ پولیس کی طرف سے آئے ڈی ایس پی لیگل اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کو شرم دلائی کہ یہ کیا کیس ہے؟اصل فیصلہ کے خلاف آپ نے اپیل کی نہیں اور ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف سی پی ایل اے میں آگئے ہیں اور اپیل خارج کردی۔ میں یہ فیصلہ سن کر خوش ہوگیا باہر نکل کر ڈی ایس پی لیگل توقیر صاحب کے چہرہ کی طرف دیکھا جو میرے اچھے دوست رہے ہیں تو مجھے ایسا لگا جیسے اُن کی کوئی فوتیدگی ہو گئی ہے پتہ نہیں کیوں۔ یہ دفتری سٹاف اور کلرک مافیا ہر کیس کو ذاتی کیس سمجھتے ہیں اور ہارنے پر یوں افسردہ ہوتے ہیں۔

یہ داستان ابھی ختم نہیں ہوتی کُچھ دن بعد میں نے سروس ٹربیونل کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے پھر آئی جی کو درخواست دی اور اس سلسلہ میں ڈی آئی جی اسٹیب محمود الحسن سے ملا اُن کا رویہ بھی وہی تھا جو ایک پی ایس پی  کا ہوتا ہے ،مگر میرے کالے کوٹ کی وجہ سے کُچھ بہتر تھا۔ اُنہوں نے وعدہ کیا کہ جلد آپ کی سنیارٹی آپ کو مل جائے گی مگر دو ماہ گزرنے کے باوجود کُچھ نہیں ہوا۔ اب میں بہاولپور ہائیکورٹ آئی جی پنجاب ہوم سیکریٹری پنجاب اور آر پی او بہاولپور کے خلاف توہین عدالت میں جا رہا ہوں۔مجھے اللہ سے پوری اُمید ہے کہ میں ان الف سے افسر اور ک سے کلرکوں کے خلاف 2003 سے لڑنے والی یہ عدالتی جنگ ضرور جیتوں گا ،اور اپنا حق لے کر رہوں گا انشااللہ

ضروری نوٹ :-(یہاں الف سے اُلو اور ک سے وہ بلکل نہ سمجھا جائے)

خالق نے جب ازل میں بنایا کلرک کو
افسر کے ساتھ پن سے لگایا کلرک کو

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos