Premium Content

خراب دماغی صحت اور بہبود

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: حفیظ اللہ خان خٹک

ہم سب صحت مند رہنا چاہتے ہیں اور عام صحت سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، لیکن اگر ہم ذہنی طور پر صحت مند نہیں ہیں تو یہ ناممکن کہ ہم کوئی بھی کام بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں۔ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت بھی بہت اہم ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ذہنی تندرستی کی تعریف فلاح و بہبود کی حالت کی حیثیت سے کی گئی ہے جس میں فرد اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرسکتا ہے، زندگی کے معمول کے دباؤ سے نمٹ سکتا ہے ، نتیجہ خیز کام کرسکتا ہے ۔

دماغی صحت کسی کی جذباتی ، نفسیاتی اور معاشرتی بھلائی کو بیان کرتی ہے۔ ہماری ذہنی صحت، ہماری کھانے کی عادات ، جسمانی سرگرمی کی سطح ، دوسروں کے ساتھ سلوک ، اور مشکل حالات میں ہم کیسے سوچتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرتے ہیں اس پر اثر پڑتا ہے۔ ہمیں ہر ایک دن ذہنی صحت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسی شخص کی ذہنی صحت اتنی ہی اہم ہے جتنی اس کی جسمانی صحت ، اور جسمانی بیماریوں کی طرح ذہنی صحت کی صورتحال بھی اتنی ہی حقیقی ہے۔ اپنی گفتگو اور دوسروں کے ساتھ بات چیت کے دوران اس کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

عام طور پر، جب ہم بات کرتے ہیں صحت   کی تو ہم نزلہ، سر درد یا دیگر کم و بیش سنگین جسمانی مسائل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ تاہم، ذہنی صحت ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو واقعی اچھی طرح تلاش کریں۔ اس کے بغیر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہمارے خون کے ٹیسٹ کے نتائج کتنے اچھے ہیں۔

ہماری نفسیاتی حالت کو ہمارے جسم سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ دونوں دو طرفہ تعلقات کو برقرار رکھتے ہیں۔ دماغی صحت کا مطالعہ متعدد پیشوں اور مختلف ماڈلز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ چار میں سے ایک شخص اپنی پوری زندگی میں کم از کم ایک ذہنی عارضے میں مبتلا ہوتا ہے۔

خراب دماغی صحت کی وجوہات

پاکستان میں نفسیاتی مسائل کی موجودہ وجوہات میں سے ایک جنسی ہراسانی ہے۔ خواتین کو اکثر ”عوامی ملکیت“ سمجھا جاتا ہے اور ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں غیر صحت مند اور غیر محفوظ ماحول وسیع پیمانے پر ہیں، جو مردوں کو کمزور خواتین کو ایک آسان ہدف کے طور پر دیکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہراساں کیے جانے پر وہ ذہنی طور پر صحت مند کیسے رہ سکتے ہیں؟  چاہے وہ انسٹی ٹیوٹ ہو، شاپنگ مال ہو یا کام کی جگہ۔

بے روزگاری پاکستان میں نفسیاتی مسائل کی ان وجوہات میں سے ایک ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی 60% ناخواندگی کی وجہ سے، اکثریت کو دونوں پہلوؤں کو پورا کرنے کے لیے ایک مشکل کام کا سامنا ہے۔ ذریعہ معاش کا مسئلہ اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ  40% آبادی جو کہ خواندہ بھی ہے یا تو انہیں نوکری نہیں ملتی یا اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اتنی کم تنخواہ ملتی ہے، جس کی وجہ سے وہ تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم پاکستانی نوجوانوں کو دیکھیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ بے روزگاری بالغوں میں نہیں بلکہ نوجوانوں میں بھی نفسیاتی عارضے کا باعث بن رہی ہے۔

کوووڈ-19نے لوگوں کی جسمانی صحت کو تباہ کرنے کے علاوہ انہیں جذباتی اور ذہنی طور پر بھی تباہ کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وہ اپنے رشتہ داروں کو دکھی حالات میں مرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور بہت کچھ۔ لوگ اپنے خیالات پر قابو پانے کی کتنی ہی کوشش کریں، سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے ذہنوں کومنفی  خیالات سوچنے سے نہیں روک سکتے، جو ان کے ذہنوں پر دباؤ ڈالتے ہیں۔

امتیازی سلوک کی وجہ سے خواتین کو بہت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض حالات مردوں کو عورتوں پر غیر منصفانہ برتری دیتے ہیں۔ کئی نجی اور سرکاری اداروں میں خواتین کے لیے یکساں ملازمت کے مواقع میسر نہیں ہوتے۔ کیونکہ یہ وسیع پیمانے پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو شادی کر کے رخصت ہو جائیں گی یا زچگی کی چھٹی لیں گی۔ اس امتیازی سلوک کی وجہ سے خواتین نہ صرف بہت سے مواقعوں سے محروم رہتی ہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بیمار بھی ہو جاتی ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو کسی کی ملکیت سمجھا جاتا ہے، جب کہ مردوں کو والدین کی بھلائی کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، لڑکوں کو اچھی طرح سے تعلیم دی جاتی ہے، اچھی طرح سے کھلایا جاتا ہے، اور ترجیح دی جاتی ہے۔ اگرچہ زیادہ تر گھرانوں اور غریب خاندانوں میں خواتین  کو عام طور پر پیٹ بھرنے کے لیے کھانا نہیں ملتا۔ یہ امتیازی سلوک  ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

پیاروں کی  موت بہت تکلیف دہ  ہوتی ہے۔ آپ  کے حالات  اپنے پیارے کے فوت ہونے سے متاثر ہوتے ہیں، خاص طور پر جب یہ حادثاتی یا اچانک ہو۔ جن لوگوں کو پہلے سے ہی کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے ، اُن کے کسی قریبی شخص کی موت کے بعد ان کی حالت خراب ہو سکتی ہے۔ دوسری صورت میں، جو لوگ ذہنی طور پر ٹھیک ہیں، اس کے نتیجے میں بھی  دماغی بیماری پیدا ہوسکتی ہے۔

پاکستانی خاندانوں کی پست سماجی و معاشی حالت ان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جو بچوں کو کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ کئی بار تو انہیں تنخواہ بھی نہیں دی جاتی۔ مزدوری سے متعلق کاموں میں ملوث بچوں کو نفسیاتی سماجی صحت کی نشوونما کا موقع نہیں ملتا۔ چائلڈ لیبر بچے کی صحت کے لیے بہت سے جسمانی خطرات کا باعث بنتی ہے، لیکن سب سے زیادہ بگڑنے والا اثر نفسیاتی ہوتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں والدین اپنے بچے کے کیریئر کا انتخاب کرتے ہیں۔ والدین کے دباؤ کی وجہ سے، وہ اپنے خوابوں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ ان مضامین کا انتخاب کرتے ہیں جن کا فیصلہ ان کے والدین کرتے ہیں۔ منتخب کردہ مضامین میں ذوق نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتےاور ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔

بعض اوقات، دماغی بیماریاں خاندانوں میں چلتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ خاندان میں بیماری کا ہونا آپ کو خود اس کی نشوونما کا زیادہ موقع فراہم کر سکتا ہے۔

نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ مصائب کو دور کرنے کا ایک سستا طریقہ ہے۔ اس کے باوجود وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ مشق ان کے لیے قلیل مدتی ریلیف کی بجائے طویل المدتی نفسیاتی مسئلہ کا باعث بن رہی ہے۔

ذہنی مسائل میں مبتلا افراد اکثر طبی علاج کی تلاش میں پھیرتے ہیں  اور اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انہیں کوئی مسئلہ ہے۔ لہذا، نفسیاتی حالات کے علاج میں پہلا قدم یہ تسلیم کرنا ہے کہ مسئلہ موجود ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ طبی نگہداشت آتی ہے، جو ڈاکٹر کو فوری طور پر دماغی عوارض کی علامات اور خطرات کا جائزہ لینے کی اجازت دیتی ہے۔

ذہنی صحت جذباتی ، معاشرتی اور نفسیاتی تندرستی سے مل کر بنتی ہے۔ مثبت ذہنی صحت کا حصول بہت سے طریقوں سے قابل قدر اور مددگار ہے۔زیادہ مثبت دماغی صحت کی نشوونما کے لئے آپ بہت سے کام کرسکتے ہیں۔ اپنی ذہنی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کے کچھ اقدامات یہ ہیں۔

مثبت رہیں

جسمانی طور پر متحرک رہیں

دوسروں کے ساتھ مسائل شیئر کریں

مقابلہ کرنے کی نئی مہارتوں کو تلاش کریں اور ان پر عمل کریں

مراقبہ کریں

جب آپ کو ضرورت ہو تو پیشہ وارانہ مدد طلب کرنے سے نہ گھبرائیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos