پٹرول کی قلت

[post-views]
[post-views]

پچھلے 10 مہینوں میں معمول بن گیا ہے، کہ کوئی ضروری سامان یا شے جس کی قلت ہو جاتی ہے اُس کی مارکیٹ سے غائب ہونے کی خبریں آنے لگ جاتی ہیں۔ ریاست کی بے بسی کے ساتھ، بے ضمیر عناصر کو مختلف اشیاء کی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ یہ اشیاء جو مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہیں ان کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو نے لگ جاتی ہیں۔ مافیا انہیں منہ مانگی قیمت کے عوض فروخت کرتا ہے۔  پٹرولیم مصنوعات مارکیٹوں سے غائب ہونے والی تازہ ترین شے بن گئی ہے، خاص طور پر پنجاب میں، کیونکہ پٹرول پمپ مالکان کا خیا ل ہے کہ حکومت آئی ایم ایف معاہدے کی وجہ سے جلد ہی ان کی قیمتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں ایک شرط پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانا بھی ہے، جس کی وجہ سے ذخیرہ اندوز پٹرولیم مصنوعات کو ذخیرہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں، تاکہ جب حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائیں تو اُن کو زیادہ منافع ہو۔  دوسری بڑی وجہ درآمدات ہے، پہلے سے انتباہ کیا گیا تھا کہ لیٹر آف کریڈٹ جاری نہ ہونے کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں کی جانب سے مالی اعانت اور درآمدات کی ادائیگیوں میں سہولت فراہم کرنے سے انکار کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات کی سپلائی میں کمی کی بات بھی کی گئی تھی ۔ ملک کے ختم ہونے والے زرمبادلہ کے ذخائر، جو اس وقت $3 بلین سے کم ہیں، کو غیر ملکی ادائیگیوں کو روکنے کی ضرورت تھی۔

ایک ہفتے کے اندر، پنجاب کے تقریباً تمام شہروں کے پٹرول  پمپوں پر پٹرول کی قلت کی خبریں آ رہی ہیں۔ کچھ پمپ بند پڑے ہیں اور کچھ معمولی مقدار میں پٹرول دے رہے ہیں۔  اس حوالے سے  وزیر مملکت برائے پیٹرولیم، ڈاکٹر مصدق ملک نے ذخیرہ اندوزوں کو سخت وارننگ بھی  جاری کی ہے، لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔ لاہور جو پنجاب کا دار الحکومت ہے کے وسط  میں بھی پٹرول پمپوں پرپٹرول معمولی مقدار میں دیا جا رہا ہے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی پنجاب کے چیف سیکرٹری کے ساتھ ان مقامات کی فہرست شیئر کی جہاں انہیں یقین ہے کہ پٹرولیم مصنوعات  کو ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔ اب دیکھا  یہ جائے گا کہ حکومت کیا کاروائی کرتی ہے؟ کتنے ذخیرہ اندوزوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اورانہیں سزائیں دی جاتی ہیں؟ اور کتنے ڈیلرز کے لائسنس منسوخ کیے جاتے ہیں؟

دریں اثنا، شہری اس امر سے پریشان ہیں کہ اُن کے پاس پٹرولیم مصنوعات کی جو سپلائی میسر ہے وہ کتنے دن تک مزید چلے گی۔ یہ واقعی ایک افسوسناک صورتحال ہے، اور حکومت نے اس صورتحال کو مزید خراب کیا ہے چونکہ انہوں نے اتنے دنوں سے چلنے والی خبروں پر بروقت کوئی پلان مرتب نہیں  کیا۔ جس کا خمیازہ شہریوں کے ساتھ ساتھ اب حکومت کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لگتا ہے حکومت اس بارے میں ناتجربہ کار ہے کہ بحران والی صورتحال میں معیشت کو ذمہ داری کے ساتھ کیسے چلایا جائے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos