مصنفہ صفورا ضیاء انگریزی ادب کی لیکچرر ہیں۔
ایک وقت تھا کہ مٹی کے برتنوں میں کھانا کھا کر بھی ہم تندرست تھے۔ توانائی بہت تھی ہم میں۔ اب دورِ جدید میں جدت سے آراستہ قیمتی برتنوں میں کھانا کھا کر ہم میں سے ہر دس میں سے نو لوگ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلاء ہیں۔ اب بس ہمیں کھانے کی ہے۔ یہ بات پہلے اہمیت رکھتی تھی کہ کہاں سے آیا ، کیسے آیا ، حرام کا ہے ہے، یا حلال کا؟ اب تو ہم میں سے اکثریت بس یہ پوچھتی ہے ،”کتنا ہے؟ کم تو نہیں پڑے گا نا؟” ۔ حلال اور حرام کا فرق ویسا نہیں رہا۔ وہ ہمارے میزوں پر پڑا کھانا ہو یا ہمارے بنک میں موجود بھاری رقم ہو اس میں حلال یا حرام کی پہچان واضح نہیں رہی۔
ایک وقت تھا جب ہم ایک دوسرے کو سرپرائز دے کر خوش ہوتے تھے۔ اس اچانک ملنے والی خوشی کا مزہ بے مثال ہوا کرتا تھا۔ اب تو آپ زرا گھر سے باہر نکلیں تو آپ کے ساتھ پرینک ہو جاتا ہے۔ پرینک کرنے والے کے لیے آپ کی زبان سے وہ سخت اور گالی کے الفاظ ادا ہوتے ہیں جو شاید کسی اور جگہ ادا نہ کیے ہوں۔ پھر آپ کو یہ جملہ سن کر پتہ چلتا ہے کہ آپ کے ساتھ پرینک ہوا ہے ، “وہ دیکھیں سامنے کیمرہ لگا ہے، ہاتھ ہلا دیں۔” ایسا تو ہوگا کیونکہ سرپرائز کی جگہ اب پرینک متعارف ہو گئے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جب فریڈم آف سپیچ تو زیادہ نہیں تھی لیکن کسی بڑے یا دانشور کی بات کو کاٹنا ایک گستاخی کے معنوں میں لیا جاتا تھا۔ ہمیں پتہ تھا کہ بات کو سنتے کیسے ہیں اور پھر اس پر اپنی سوچ کے مطابق کیسے نقظہ نظر پیش کرتے ہیں۔ اب اِن دنوں فریڈم آف سپیچ کی بات ہر طرف کی جارہی ہے کہ ہر ایک کو اپنی رائے دینے کا حق دیا جائے لیکن ہم ایک دوسرے کی آراء کا احترام تو دور ان کو سننے سے بھی قاصر ہیں۔ فریڈم آف سپیچ کے لیے ہر انسان اپنی بات اور رائے دوسروں تک پہنچانے کے لیے آوازیں بلند کیے ہوئے ہے اور یوں معاشرے میں ایک شور سا برپا ہے۔
غرض ہم وقت کے ساتھ چلنے کے واسطے خود بھی فاسٹ ہو گئے، جدت کو اپنا لیا، ٹرینڈز کو معاشرے میں عام کردیا ۔۔۔۔۔ لیکن زرا ملاحظہ کریں کہ ہماری اخلاقی اقدار ، روایات اور مذہبی عقائد کس حد تک کمپرومائزڈ ہو چکے ہیں۔ بطور انسان بطور اس زمین کے باسی ہم نے اس کے نقشے کو کیا کر دیا ہے؟ اب دورِ حاضر کی جدت پسندی کو اپنا تو لیتے ہیں لیکن ان تمام اجزاء کو بھول جاتے ہیں جو ہماری پہچان ہیں۔ ان سے مراد ہمارے رواج، روایت، اخلاقیات، تعلیم و تربیت وغیرہ ہیں۔ شاید اب کے ہماری پہچان یہ ہے کہ ہم “دنیادار” ہیں۔ جدت پسندی بری بات نہیں۔ زمانے کے ساتھ چلنا بری بات نہیں ۔برا ہے اپنے ماضی کی عظمت کو بھول جانا اور اخلاقیات کو ترک کرنا۔
اس معاشرے کے بیمار اور زخموں سے چور لوگوں کی بات سن کر انہیں پاگل کہنے کی بجائے حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ پیروں کے منتروں کو چھوڑ کر فقط خدا سے مانگنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے کی آواز دبانے کی بجائے اپنی آواز دبا کر اس کی صدا سننے کی ضرورت ہے۔ ایک روانی جو ہمارے کردار کو موثر کرتی تھی اسے پھر سے ڈھوںڈیں۔ اس کے لیے اس بات کا ادراک کرنا لازمی ہے کہ جدت اور روایات کو ساتھ باہم لے کر کیسے چلا جائے۔ تو اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ جدیدیت کی اس پرکیف دنیا میں جو چند لوگ روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ان کو پرانے زہن کا سمجھ کر ان کا تمسخر اڑانے سے اجتناب برتا جائے۔ان کی صحبت کو اختیار کیا جائے۔اس نسلِ نو کو جدیدیت اور اخلاقیات کو ایک جتنی وقعت دینے کی ترغیب دی جائے۔ ان کو بتایا جائے کہ ملتا وہ ہی ہے جو خدا سے مانگا جاتا ہے،اور یہ کہ واٹس ایپ کے علاوہ شہر کے کسی مشہور اور خوبصورت مقام پر دوستوں اور رشتےداروں کے ساتھ گپ شپ کرنے کا لطف زیادہ ہے۔
تعلیم کے ساتھ اپنی گفتگو اور لہجے سے اپنی تربیت کو مثبت انداز میں عیاں کریں۔ انسان کی انسان خدمت کرے یہاں تک کہ یہ زمین بھی ہمارا مسکن ہونے پر فخر کرے اور آسمان بھی رشک کیے بنا نہ رہ سکے۔ خدا بھی یہ کہے کہ ہاں انسان نے انسان سے محبت کی ہے!
2 thoughts on “ایک زمانہ تھا (پارٹ-ٹو)”
Reality based
To be honest, I don’t know how you manage to do such a good job every time.well done. Looking forward to the next article.🤗