Premium Content

لاہور لاہور ہے

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹر محمد کلیم

جام صاحب فرماتے ہیں جب وہ پہلی مرتبہ ایشیاء کے پیرس تشریف لائے تو اس کی حالت زار پر بہت رونا آیا۔ ایسا ہجوم کہ اللہ کی پناہ، وہ ہجوم کو دیکھ کر اپنی شناخت ہی بھول گئے۔ لاہور شہر میں تین قسم کی آبادی رہتی ہے۔ پہلی وہ جو چھ بجے اٹھتی ہے۔ دوسری دوپہر کو دو بجے، تیسری شام سات بجے ان تین آبادیوں کی وجہ سے لاہور سوتا نہیں ہے۔ جب ایک آبادی کے سونے کا وقت ہوتا ہے باقی جاگ رہے ہوتے ہیں۔ لاہور شہر میں آپ کو ویرانی صرف آپ کے دل میں محسوس ہوتی ہے باقی ہر جگہ رونق ہی رونق ہے۔

لاہور شہر میں دو قسم کے لوگ آباد ہیں ایک وہ جو لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے پینڈو کہلاتے ہیں۔ پینڈو لوگ نئی کھلی کالانپوں میں شہر کے پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ لاہوری پرانے لاہور میں آباد ہیں جن کی گلیوں کے بارے میں مشتاق یوسفی فرما گئے ہیں۔ ”لاہور کی گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آئے اور دوسری طرف سے آدمی تب ان کے درمیان صرف نکاح باقی رہ جاتا ہے“۔

لاہور کے بارے میں مشہور ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ بھائی اگر اس بات پر یقین کر لیں تو باقی تمام دنیا کی آبادی ضرور زمین سے اگی ہو گی سوائے لاہوریوں کے۔

لاہور نہ صرف آپ کو دنیا میں رہنے کا سلیقہ سکھاتا ہے بلکہ آخرت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ پل صراط اور لاہور کی سڑکوں میں ہم کو تو خاص فرق معلوم نہیں ہوا۔ جام صاحب فرماتے ہیں جس جس نے لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکل چلا لیا۔ اس کو جنت میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ وہ راستہ نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں یہی لوگ پل صراط پر آپ کو روز قیامت جنت کے دروازے پر سب سے پہلے کھڑے نظر آئیں گے اور اس کے بعد مال روڈ (پل صراط) پر احتجاج کر کے باقی آنے والوں کا راستہ روک لیں گے۔ اس طرح جنت پر ان کا قبضہ ہو جائے گا۔

لاہور کی زبان بھی بڑی خوبصورت ہے زیادہ تر لوگ پنجابی بولتے ہیں۔ لیکن اردو بھی کثرت سے بولی جاتی ہے۔ لاہوری جب اردو بولتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گاڑی میں کچرا آ گیا ہے اور جھٹکے لگنے لگے ہیں کبھی رفتار زیادہ ہو جاتی ہے کبھی کم ہو جاتی ہے۔ اسی اتار چڑھاؤ میں بات مکمل ہو جاتی ہے لیکن بات بالکل سر کے اوپر سے نکل جاتی ہے۔

جام صاحب ایک واقعہ سے لاہور کے لوگوں کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک موٹر سائیکل سوار اشارہ کاٹ کر تیزی سے آ کر ان کی گاڑی میں ٹکرایا۔ غلطی کے باوجود گرم ہو گیا اور اونچی اونچی زبان میں ہجو بکنے لگا۔ جام صاحب نے فرمایا ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ والی صورت حال تھی۔ آخر جام صاحب کو بھی غصہ آ گیا اور انہوں نے گرج کر اس کو ڈانٹا۔ ان کی پاٹ دار آواز سن کر وہ شخص بکری کی طرح بیٹھ گیا۔ کہنے لگا بھائی جان، غلطی بھی آپ کی ہے اور ناراض بھی آپ ہو رہے ہیں۔ اگر آپ نے بھی لاہور رہنے کا ارادہ باندھ لیا ہے تو روز صبح سویرے غرارے کرنا نہ بھولیں کیونکہ آپ کی آواز گرج دار ہونی چاہیے پھر دیکھیں آپ کو راستہ کیسے ملتا ہے۔

زندہ دلان لاہور کے دل بہت بڑے لیکن جیبیں بہت چھوٹی ہیں۔ وہ آپ کو گھر رہنے کی آسانی سے اجازت دے دیتے ہیں بشرط سارے گھر کا خرچ آپ چلائیں گے۔ جام ساقی اس نکتے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب ان کے دوست نے ان کو گھر رہنے کی اجازت دی تو وہ بہت حیران رہ گئے۔ انہوں نے اس کو معیوب سمجھا ہزار بہانے بنائے لیکن ان کے دوست زبردستی ان کو گھر لے آئے۔ اب کیا تھا پہلے دن ناشتے کے وقت سب سوئے ہوئے تھے۔ ان کی بھوک سے جان نکل رہی تھی وہ بازار سے ناشتہ لے آئے خود بھی کھایا اور دوست کی فیملی نے تناول کیا اسی طرح دوپہر کو ہوا، شام کو ہوا۔ جام صاحب جو کہ خوش تھے کہ ہوٹل کا کرایہ بچ جائے گا۔ ان کے تین گنا پیسے لگ گئے تو رات کو خفیہ طریقے سے بھاگے اور ہوٹل آ کر پناہ لی۔

ایک دن جب جام صاحب لاہور پہنچے، بس سے اترے ہی تھے کہ آواز آئی انکل کدھر جانا ہے۔ وہ حیران ہو گئے کیونکہ لاہور میں کوئی بھی ان کا جاننے والا موجود نہیں تھا جو ان کو انکل پکارتا تھوڑی دیر بعد پھر آواز آئی انکل رکشہ، کدھر جانا ہے۔ جب جام صاحب نے مڑ کر رکشہ والے کی طرف دیکھا تو رکشے والا ان سے عمر میں کافی بڑا تھا لیکن برداشت کیا۔ جیسے، جیسے وہ لاہور رہنے کی عادی ہوئے تو انکل کہلانے کے بھی عادی ہو گئے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لاہوریوں کا بس چلے تو اپنے بیٹے کو بھی انکل کہیں۔ جام صاحب کہتے ہیں ابھی وہ لاہوری ہونے کی طرف سفر کر رہے ہیں اگر مستقبل قریب میں ان میں بھی یہ سارے جراثیم جو اوپر بیان کیے ہیں لگ جائیں تو ان پر اعتراض نہ کیا جائے کیونکہ اکثر لوگوں کو یہ جراثیم بہت جلد لگ جاتے ہیں اور آدمی ان کے آگے ڈھیر ہوتا چلا جاتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos