تحریر: شفقت اللہ مشتاق
ویسے تو یوم اقبال گزر گیا ہے لیکن سوچ کے تاروں نے آج خود بخود ہلنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان علامہ اقبالؒ کی سوچ، قائد اعظم ؒ کی محنت اور مسلمان قوم کی مسلسل جدو جہد کا نتیجہ ہے۔ کاش اگر ہمارے پاس اقبال کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کا وقت ہوتا تو ہم اس وقت کہیں کے کہیں کھڑے ہوتے۔ کاش ہم زندگی کو کھیل تماشہ نہ سمجھتے تو ہمارے ہاں کھیل بھی ایک نظم و ضبط کے تحت کھیلا جاتا اور فاول پلے کی قطعاً اجازت نہ ہوتی بلکہ اس پر باقاعدہ باز پرس ہوتی اور ایسی صورتحال میں اپیل کا حق ہوتا اور اپیل کو ہر صورت میں منظور ہونا اپنا حق نہ سمجھا جاتا۔ استحقاق کی شق یقینا اپنی جگہ ہے لیکن مولانا روم کے بقول جس کسی نے اپنے سے بڑے کے مقابلے میں اپنا استحقاق بتایا ہے وہ رسوا ہی ہوا ہے اور جس نے بڑے کے سامنے اپنا استحقاق سرنڈر کیا ہے وہ سرخرو ہوا ہے۔ بہرحال یہ بزرگوں کی باتیں ہیں ان میں ایک خاص حکمت اور دانائی کا پہلو ہوتا ہے اور صوفیاء کی شاعری عبد اور معبود کے گرد گھومتی ہے صرف بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ آجکل ہمارے جسم کے اوپر والا چیمبر ان سب چیزوں کی اہمیت وافادیت سمجھنے سے پوری طرح خالی ہو چکا ہے ہم آج کو ہی سارا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی سارا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری ترقی کا پہیہ بالکل جام ہوگیا ہے اور سسٹم بیٹھ گیا ہے۔ آپا آپی اور نفسا نفسی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ شور شرابے کا دور ہے حالانکہ شراب کے پینے پلانے پر مکمل پابندی عائد ہوچکی ہے جبکہ دوسری طرف غل غپاڑہ اور وہ بھی سرعام سڑکوں پر خوب دیکھا جا سکتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہر وقت حضرت انسان لگا رہتا ہے ویسے ہم سارے ہی بڑے حضرت ہیں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ جھوٹ بولنا تو معمولی بات ہے۔ ایک دوسرے پر بہتان لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقتدار سے علیحدہ ہونا ہماری ساری صلاحیتوں کی موت ہے۔ نعروں،لاروں اور کاروں کی ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں گواہوں نے اگلے جہان جا کرہی سچ بولنا ہے۔اب ویڈیو بنانے کی فیکٹریاں جابجا بن چکی ہیں اور پھر ہم چسکے اور ٹھرک کی وجہ سے ویسے ہی ننگے ہو گئے ہیں۔ ہم سب اپنی آئی پر آگئے ہیں۔ اب تو زنجیروں نے ٹوٹنا ہے یا پھر ہم سب کے دل ویسے ہی ٹوٹ جائینگے ویسے اس دل نامراد کو اب ٹوٹ ہی جانا چاہیے اس نے کائنات ارض و سما میں بڑوں بڑوں کے گھر برباد کئے ہیں۔ بندہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کوئی بھی قابل ہو تو ہم اسے شان کئی دیتے ہیں اور ڈھونڈھنے والوں کو بھی اک دنیا نئی دیتے ہیں۔ شاید ہم نئی دنیا کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔ پرانی دنیا سے ہم پوری طرح بیزار ہیں اور نئی دنیا ہمیں نئی نئی لگتی ہے اس لئے ہمارے لئے آج کی دنیا بڑی ہی اجنبی ہے۔ اپنائیت کے رشتوں کو ہم نے طاق پر رکھ دیا ہے اور محبت اور اخوت کے رشتے کو بذریعہ طلاق ختم کردیا ہے۔ یوں اخلاقیات نے ہمیں عاق کردیا ہے۔ البتہ ہم بیباک ہوگئے ہیں جو ہمارے دل میں آتا ہے کہے جارہے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں لگ رہا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ ہم بھاڑ میں جارہے ہیں اور شیروں کی طرح دھاڑ رہے ہیں اور اپنی ہی فصلوں کو اجاڑ رہے ہیں ویسے ہم نے امید بہار رکھی ہوئی ہے اب دعا کریں موسم بہار میں کہیں اولے نہ پڑنا شروع ہو جائیں ایسی صورتحال میں بجلی چمکے گی خوفناک آواز پیدا ہوگی اور پھر بجلی گرجائے گی۔ یوں کئی نشیمن جل کر راکھ ہو جائینگے۔ الحفیظ الاماں۔ یہ ساری صورتحال آنکھ کھول دے گی اور پھر آنکھیں چھم چھم برسیں گی لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ عقل کا تقاضہ ہے کہ فوری یوٹرن بلکہ آباؤ ٹرن لیا جائے اور صورتحال کو نو ریٹرن پر نہ لے جایا جائے اور ایک دوسرے کے ہاں آیا جایا جائے۔ ایک دوسرے کے پاس آنے جانے اور تحفے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے اور محبت کی پینگیں بڑھانے سے گھر آباد ہونے کا قوی امکان ہے۔ ویسے ہم سب میں کوئی فرق نہیں ہے ہم سب شہرت،عزت،سیاست،اقتدار،پیار،وقار،ہاراور سرکار کے بھوکے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان بھوک میں کچھ بھی کھا سکتا ہے اور اپنے من اور تن کی بھوک مٹانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر ہمارا کچھ نہیں رہا تو ہم دوسرے کا بھی کچھ نہیں رہنے دیں گے۔ صوفی شعرا کا ہر شعر بلکہ شعر کا ہر فقرہ بلکہ ہر فقرے کا ایک ایک لفظ کوئی نہ کوئی پیغام دیتا ہے۔ دوئی کا تصور انہوں نے ایسے ہی تو نہ ہائی لائٹ کیا ہے۔ جس جس نے دوئی کے بت کو پاش پاش کیا ہے اس کا دل ودماغ منور ہوا ہے۔
ہمارے تو دماغ میں جب کوئی بات آجاتی ہے توآسانی سے جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس کو سمجھا کر بلکہ جتیاں مار کرہی نکالنا پڑتا ہے۔ حالانکہ مار سے الار بہتر ہوتی ہے اور ہم بہتری کی طرف جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔پہلے دنیا میں ایک دوسرے کو بدنام کرتے ہیں پھر مجموعی طور پر بحیثیت قوم بدنام ہوجاتےہیں۔ شاید ہمارا مطالعہ محدود ہے اور ہم نے صرف ایک ہی بات یاد کی ہوئی ہے ۔ بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا۔ میرے ہم وطنو اب حساس دور شروع ہونے والا ہے۔ کان کھول کر سنو۔ ماضی آہیں بھرنے کے لئے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے سبق بھی سیکھا جا سکتا ہے۔ حال صرف شور شرابا کرنے کے لئے ہی نہیں ہوتا اس میں مل کر کوئی مثبت کام بھی کیا جا سکتا ہے تب جا کر مستقبل میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے کا امکان ہوتا ہے۔ ہنوز ہمارے ہاں ٹھنڈ پروگرام ہے اور صف ماتم بچھا ہواہے۔ شام غریباں منعقد ہو چکی ہے۔ ہوش کے ناخن لینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے ہمارے ناخن کاٹ دیئے گئے ہیں۔ پہلے لائن کٹی تھی اور پھر پتنگ کٹ گئی۔ پتنگ بازی پر ۔پابندی اور پھر پابندی پر پابندی۔ کاش ہم اپنے آئین پر عمل کرنے کے پابند بنا دیئے جاتے تو ہمارے ہاں تعمیر وترقی کے دیئے جل جاتے۔
پاکستان علامہ اقبالؒ کی سوچ، قائد اعظم ؒ کی محنت اور مسلمان قوم کی مسلسل جدو جہد کا نتیجہ ہے۔ کاش اگر ہمارے پاس اقبال کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کا وقت ہوتا تو ہم اس وقت کہیں کے کہیں کھڑے ہوتے۔ کاش ہم زندگی کو کھیل تماشہ نہ سمجھتے تو ہمارے ہاں کھیل بھی ایک نظم و ضبط کے تحت کھیلا جاتا اور فاول پلے کی قطعاً اجازت نہ ہوتی بلکہ اس پر باقاعدہ باز پرس ہوتی اور ایسی صورتحال میں اپیل کا حق ہوتا اور اپیل کو ہر صورت میں منظور ہونا اپنا حق نہ سمجھا جاتا۔ استحقاق کی شق یقیناً اپنی جگہ ہے لیکن مولانا روم کے بقول جس کسی نے اپنے سے بڑے کے مقابلے میں اپنا استحقاق بتایا ہے وہ رسوا ہی ہوا ہے اور جس نے بڑے کے سامنے اپنا استحقاق سرنڈر کیا ہے وہ سرخرو ہوا ہے۔ بہرحال یہ بزرگوں کی باتیں ہیں ان میں ایک خاص حکمت اور دانائی کا پہلو ہوتا ہے اور صوفیاء کی شاعری عبد اور معبود کے گرد گھومتی ہے صرف بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ آجکل ہمارے جسم کے اوپر والا چیمبر ان سب چیزوں کی اہمیت وافادیت سمجھنے سے پوری طرح خالی ہو چکا ہے ہم آج کو ہی سارا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی سارا کچھ سمجھ بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری ترقی کا پہیہ بالکل جام ہوگیا ہے اور سسٹم بیٹھ گیا ہے۔ آپا آپی اور نفسا نفسی کا دور شروع ہوگیا ہے۔ شور شرابے کا دور ہے حالانکہ شراب کے پینے پلانے پر مکمل پابندی عائد ہوچکی ہے جبکہ دوسری طرف غل غپاڑہ اور وہ بھی سرعام سڑکوں پر خوب دیکھا جا سکتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہر وقت حضرت انسان لگا رہتا ہے ویسے ہم سارے ہی بڑے حضرت ہیں اپنی دنیاوی زندگی کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ جھوٹ بولنا تو معمولی بات ہے۔ ایک دوسرے پر بہتان لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقتدار سے علیحدہ ہونا ہماری ساری صلاحیتوں کی موت ہے۔ نعروں،لاروں اور کاروں کی ہمارے پاس کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں گواہوں نے اگلے جہان جا کرہی سچ بولنا ہے۔اب ویڈیو بنانے کی فیکٹریاں جابجا بن چکی ہیں اور پھر ہم چسکے اور ٹھرک کی وجہ سے ویسے ہی ننگے ہو گئے ہیں۔ ہم سب اپنی آئی پر آگئے ہیں۔ اب تو زنجیروں نے ٹوٹنا ہے یا پھر ہم سب کے دل ویسے ہی ٹوٹ جائینگے ویسے اس دل نامراد کو اب ٹوٹ ہی جانا چاہیئے اس نے کائنات ارض و سما میں بڑوں بڑوں کے گھر برباد کئے ہیں۔ بندہ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کوئی بھی قابل ہو تو ہم اسے شان کئی دیتے ہیں اور ڈھونڈھنے والوں کو بھی اک دنیا نئی دیتے ہیں۔ شاید ہم نئی دنیا کے قابل ہی نہیں رہے ہیں۔ پرانی دنیا سے ہم پوری طرح بیزار ہیں اور نئی دنیا ہمیں نئی نئی لگتی ہے اس لئے ہمارے لئے آج کی دنیا بڑی ہی اجنبی ہے۔ اپنائیت کے رشتوں کو ہم نے طاق پر رکھ دیا ہے اور محبت اور اخوت کے رشتے کو بذریعہ طلاق ختم کردیا ہے۔ یوں اخلاقیات نے ہمیں عاق کردیا ہے۔ البتہ ہم بیباک ہوگئے ہیں جو ہمارے دل میں آتا ہے کہے جارہے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں لگ رہا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ ہم بھاڑ میں جارہے ہیں اور شیروں کی طرح دھاڑ رہے ہیں اور اپنی ہی فصلوں کو اجاڑ رہے ہیں ویسے ہم نے امید بہار رکھی ہوئی ہے اب دعا کریں موسم بہار میں کہیں اولے نہ پڑنا شروع ہو جائیں ایسی صورتحال میں بجلی چمکے گی خوفناک آواز پیدا ہوگی اور پھر بجلی گرجائے گی۔ یوں کئی نشیمن جل کر راکھ ہو جائینگے۔ الحفیظ الاماں۔ یہ ساری صورتحال آنکھ کھول دے گی اور پھر آنکھیں چھم چھم برسیں گی لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ عقل کا تقاضہ ہے کہ فوری یوٹرن بلکہ آباؤ ٹرن لیا جائے اور صورتحال کو نو ریٹرن پر نہ لے جایا جائے اور ایک دوسرے کے ہاں آیا جایا جائے۔ ایک دوسرے کے پاس آنے جانے اور تحفے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے اور محبت کی پینگیں بڑھانے سے گھر آباد ہونے کا قوی امکان ہے۔ ویسے ہم سب میں کوئی فرق نہیں ہے ہم سب شہرت،عزت،سیاست،اقتدار،پیار،وقار،ہاراور سرکار کے بھوکے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان بھوک میں کچھ بھی کھا سکتا ہے اور اپنے من اور تن کی بھوک مٹانے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر ہمارا کچھ نہیں رہا تو ہم دوسرے کا بھی کچھ نہیں رہنے دیں گے۔ صوفی شعرا کا ہر شعر بلکہ شعر کا ہر فقرہ بلکہ ہر فقرے کا ایک ایک لفظ کوئی نہ کوئی پیغام دیتا ہے۔ دوئی کا تصور انہوں نے ایسے ہی تو نہ ہائی لائٹ کیا ہے۔ جس جس نے دوئی کے بت کو پاش پاش کیا ہے اس کا دل ودماغ منور ہوا ہے۔
ہمارے تو دماغ میں جب کوئی بات آجاتی ہے توآسانی سے جان کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس کو سمجھا کر بلکہ جتیاں مار کرہی نکالنا پڑتا ہے۔ حالانکہ مار سے الار بہتر ہوتی ہے اور ہم بہتری کی طرف جانے کا نام ہی نہیں لے رہے۔پہلے دنیا میں ایک دوسرے کو بدنام کرتے ہیں پھر مجموعی طور پر بحیثیت قوم بدنام ہوجاتےہیں۔ شاید ہمارا مطالعہ محدود ہے اور ہم نے صرف ایک ہی بات یاد کی ہوئی ہے ۔ بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا۔ میرے ہم وطنو اب حساس دور شروع ہونے والا ہے۔ کان کھول کر سنو۔ ماضی آہیں بھرنے کے لئے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے سبق بھی سیکھا جا سکتا ہے۔ حال صرف شور شرابا کرنے کے لئے ہی نہیں ہوتا اس میں مل کر کوئی مثبت کام بھی کیا جا سکتا ہے تب جا کر مستقبل میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلنے کا امکان ہوتا ہے۔ ہنوز ہمارے ہاں ٹھنڈ پروگرام ہے اور صف ماتم بچھا ہواہے۔ شام غریباں منعقد ہو چکی ہے۔ ہوش کے ناخن لینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے ہمارے ناخن کاٹ دیئے گئے ہیں۔ پہلے لائن کٹی تھی اور پھر پتنگ کٹ گئی۔ پتنگ بازی پر پابندی اور پھر پابندی پر پابندی۔ کاش ہم اپنے آئین پر عمل کرنے کے پابند بنا دیئے جاتے تو ہمارے ہاں تعمیر وترقی کے دیئے جل جاتے۔