تحریر: ڈاکٹرعبید اللہ سرمد
:اقبال کی مولا نا روم سے عقیدت مشہورِ عوام و خواص ہے۔ مزارِ اقبال پر لکھے اقبال کے اشعار میں یہ بھی شامل ہے
پیر رومی خاک را اکسیر کرد
ازغبارم جلوہ ہا تعمیر کرد
ڈاکٹر ملک حسن اختر صاحب نے”اقبال اور رومی“ کے نام سےاپنی کتاب ”اقبال اور مسلم مفکرین“ میں ایک مضمون شامل کیا ہے ۔ اس میں ملک حسن اختر نے اقبال اور رومی کے تعلق کا اچھوتے انداز میں جائزہ لیا ہے اور اس موضوع کے کچھ نئے زاوئیے سامنے لائے ہیں۔
ملک حسن اختر صاحب کا کہنا ہے کہ اقبال سب سے زیادہ مولانا روم سے ہی متاثر ہوئے ہیں اور مولانا روم اور اقبال نے اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے قران کی تشریح و توضیح پیش کی ہے۔ ایک اہم بات جس کی طرف ملک حسن اختر صاحب نے اشارہ کیا وہ یہ ہے کہ اقبال اور مولانا روم دونوں نے اپنی زبان کی بجائے فارسی کو ذریعہ اظہار بنایا اور یہ کہ مولانا روم کی اصل زبان فارسی نہیں بلکہ ترکی تھی۔یہ بھی بتایا ہے کہ ابتدا میں اقبال رومی کے پرستار نہ تھے۔ تاہم یورپ میں پڑھائی کے دوران میں انھوں نے اسلامی مفکرین کا مطالعہ بھی جاری رکھا جس کے دوران میں انھوں نے رومی کا مطالعہ بھی کیا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے اقبال کی ”بالِ جبریل“ کی نظم ”فلسفہ و مذہب“ کا ذکر کیا ہے اور اس کے دو اشعار لکھے ہیں
حیراں ہے بو علی کہ میں آیا کدھر سے ہوں
رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں
جاتا ہوں تھوڑی دُور ہر اِک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
لیکن یہ اقبال کے ابتدائی دورِ حیرت کی باتیں ہیں۔ بعد میں جب انہوں نے رومی کا گہرا مطالعہ کیا تو ان کی ترجیحات واضح ہوتی گئیں اور وہ رومی کے شیدائی ہو گئے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ آج پورا یورپ اور امریکہ رومی کی عظمت کاقائل ہو چکا ہے۔ ان پر یورپ اور امریکہ میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ لیکن اقبال تقریباً ایک صدی پہلے رومی کے قدو قامت کو پہچان چکے تھے۔ ملک حسن اختر صاحب کے زمانہ حیات میں رومی کی وہ پذیرائی یورپ و امریکہ میں نہیں تھی جو آج ہے ورنہ یقیناً وہ اس پر بھی لکھتے۔ علامہ اور رومی کے تعلق اور علامہ کی عقیدت ے متعلق انھوں نے اقبال کے جو اشعار درج کیے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں
چوں رومی در حرم دادم اذاں من
ازاں آمو ختم اسرارِ جاں من
بو علی اندر عبارِ ناقہ گم
دست رومی پردہ ٔمحمل گرفت
عشق است کہ درجانت ہر کیفیت انگیزد
ازتاب و تبِ رومی تا حیرت فارابی
مطرب غزلے بیتے از مرشدِ روم آور
تاغوطہ زند جانم در آتشِ تبر یزے
رومی اور اقبال کے درمیان سب سے بڑا فکری اتفاق یہ تھا کہ دونوں جبر کے مخالف اور قدر کے حامی تھے۔دونوں امتوں کے عروج و زوال پر لکھتے تھے۔ دونوں کا منبع فکر قران تھا۔ ملک حسن اختر صاحب نے دونوں کے فکری اور روحانی تعلق کا بہترین تجزیہ پیش کیاہے۔ہمارے ہاں عام طور پر رومی کو اقبال کے ”پیرِ رومی“ کی حیثیت سے اُن کا مرشد سمجھا جاتا ہےاور پیرومرید کے مروجہ آداب میں مرید پیر کے احکام و نظریات کو بلا چون و چرا تسلیم کرنا اہم ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں بلھے شاہ اور شاہ عنائت کی مثال ہے۔ بلھے شاہ کا ایک نمونہء کلام درجِ ذیل ہے
شاہ عنایت سائیں میرے
ماپے چھوڑ لگی لڑ تیرے
لائیاں دی لج جا ن وے
ویہڑے آوڑ میرے
اس طرح کی خود سپردگی میں اختلافات کی گنجائش بعید از قیاس ہے۔ لیکن ملک حسن اختر صاحب نے بڑی عمدگی اور خوبی سے اقبال اور رومی کی فکری و نظریاتی ہم آہنگی کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کے فکری اختلافات کا بھی ذکر کیا ہے جس سے عامۃ الناس عمومی طور پر آگاہ نہیں۔ ڈاکٹر ملک حسن اختر صاحب کا یہ تجزیہ بہت سے لوگوں کے لیے رومی و اقبال کے فکری اختلافات کے حوالے سے نئی بصیرت عطا کرنے والا ہے جن میں راقم بھی شامل ہے۔ ملک حسن اختر صاحب نے لکھا ہے کہ رومی عطار اور سنائی کی عظمت کے معترف ہیں۔اس سلسلے میں ملک حسن اختر نے عطار اور سنائی کے متعلق رومی کے اشعار بھی لکھے ہیں
عطار روح بود و سنائی دو چشمِ اُو
ما از پسِ سنائی و عطار آمد یم
ہفت شہر عشق را عطار گشت
ماہماں اندرخم ِیک کوچہ ایم
تصوف کے ضمن میں اقبال نےحافظ شیرازی اور ابنِ عربی کے نظریات کے متعلق اسرارِ خودی میں نا پسندیدگی کا اظہار کیا،تصوف کو عجمی پوداکہا اور اسے اقوام کے لیے مہلک قرار دیا۔ افلاطون یونانی جس کےنظریات کےعجمی تصوف پر اور عجمی متصوفین، بشمول سنائی،عطار،ابنِ عربی اور معروف فارسی شاعر حافظ شیرازی پر گہرے اثرات کے علامہ اقبال قائل تھے، اس کے متعلق اقبال نے لکھا کہ
راہبِ دیرینہ افلاطوں حکیم
از گروہِ گوسفندانِ قدیم
بسکہ از ذوقِ عمل بود
جانِ اُو وارفتہء معدوم بود
دوسری طرف سنائی اور عطار معروف متصوفین تھے اور مولانا روم کے ممدوحین میں سے تھے۔ اس طرح پیرو مرید میں تصوف کے حوالے سےایک فکری بعد کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ لیکن ملک حسن اختر کے بقول اس بعد کی شدت میں بعد میں رومی کے زیرِ اثر کمی آ گئی تھی اور وہ سنائی اور عطار کی عظمت کو تسلیم کرنے لگے تھے۔ ملک حسن اختر نے اس اختلاف اور بعد میں اقبال کے کسی حد تک اس اختلاف سے رجوع کو بہت عالمانہ ڈھنگ سے واضح کیا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ جب اسرارِ خودی میں حافظ اور ابنِ عربی کے خلاف لکھا تو اس کے خلاف شدید احتجاج ہوا ۔ اس پر علامہ نے” تصوف کو ہی عجمی پودا قرار دے دیا اور تقریباً تمام شعرائے عجم کی تنقیص کرنے لگے لیکن جب یہ شور تھم گیا تو وہ ابنِ عربی کے بھی کسی حد تک حامی بن گئے۔ لہٰذا سنائی اور عطار کے متعلق بھی ان کے رویہ میں (مثبت) تبدیلی پیدا ہو گئی“۔